APRIٹونک میں فارسی کے طبی منظوم مخطوطات
APRIٹونک میں فارسی کے طبی منظوم مخطوطات
تحقیق کیا ہے؟ یہ دراصل سچائی اور حقیقت کی تلاش ہوتی ہے اور خاص طور پر گمشدہ حقائق کی اور معلوم حقائق کی تصدیق کا نام تحقیق ہے۔ اس تحقیق کا تعلق زندگی کے ہر شعبے سے ہے، ادب سے ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہمارے قدیم ادبی سرمائے پر گمنامی کے پردے پڑے رہتے۔ تحقیق کا یہ عمل اردو ادب میں اس زمانے میں وجود میں آچکا تھا جب اردو کے شاعروں کے تذکرے شروع میں فارسی زبان میں اور پھر اردو زبان میں لکھے جانے لگے۔ تحقیق کا یہ سلسلہ بڑھتا رہا اور وہ دو حصوں میں تقسیم ہوئے نظر آنے لگا۔ایک ’سندی تحقیق‘‘ اور دوسری ’’غیرسندی تحقیق‘‘۔
سندی تحقیق ، مطلب کہ ایسی ادبی تحقیق جو ہم ایم.فل. یا پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کے لیے یونیورسٹی میں حاصل کرتے ہیں اور دوسری وہ جو کسی سند کو حاصل کرنے کی غرض سے نہ کی جائے بلکہ اپنے ادبی ذوق کے باعث کوئی تحقیق کی جائے۔
اس طرح سے حاصل مکمل شواہدات ثبوت پر مبنی جزو ، انسانی صلاحیت، صبر و تحمل ، غور و فکر کے ذریعہ جو پیش کیا جائے تحقیق ہے، جسے قبول کیا جائے اور جس کا اعتراف کیا جائے۔ تحقیق کا یہ عمل صوبہ راجستھان میں اس وقت شروع ہوچکا تھا جب اس خطے میں تذکرے لکھے جانے لگے تھے اور آہستہ آہستہ جب راجستھان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالج میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ تحقیق کی سہولت بھی فراہم ہونے لگی اور یونیورسٹی اور کالج میں سندی تحقیق کا سلسلہ بڑھنے لگا تو راجستھان میں ادبی تحقیق کا سلسلہ تیز سے تیزہونے لگا۔ اسی تسلسل میں APRIٹونک نے جو خدمات انجام دیں، اس نے راجستھان میں ادبی تحقیق کو بڑی تقویت و فروغ پہنچایا۔
۱۹۶۱ء میں حکومتِ راجستھان نے ٹونک میں RORIکی ایک برانچ قائم کی تھی اور جو وقت کے ساتھ ترقی کرتے ہوئے آج MA APRIکی شکل میں تحقیق کا ایک بہترین مرکز ہے اور اربابِ تحقیق کی خواہش گاہ ہے۔
اپنے تحقیقی مقالے کے لیے راقمہ نے بھی APRIکے خزانے سے استفادہ کیا اور’’ APRIٹونک میں فارسی کی طبی کتب اور مخطوطات ‘‘ موضوع منتخب کیا ، اگرچہ یہ موضوع فارسی سے تعلق رکھتا ہے اور راقمہ نے برکت اللہ یونیورسٹی بھوپال سے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ہے۔
میرے مقالے سے متعلق سارا مواد اس ادارے میں موجود رہاہے، فنِ طب کے یہاں نادر و نایاب مخطوطات موجود ہیں، مگر اس پر ابھی تک کسی نے کوئی کلام نہیں کیا تھا، حالانکہ علم طب آج بھی ہمارے درمیان جگہ بنائے ہوئے ہے، مگر پھر بھی راجستھان کی تاریخ میں درج یہاں کے عمدہ اور بیش قیمتی نسخے و نمونے اب تک فقط تاریکی میں پڑے تھے، مجھے ایک تحقیق نگار کے طور پر یہ شرف حاصل ہوا ، فن طب کے زبانِ فارسی میں کئی نادر مخطوطات یہاں موجود ہیں جن میں اس گذرے دور کی تاریخ ، سیاست، حکمت و عمل، ادب و رواجات ، ماحول و معلومات تمام پہلو درج ہیں۔ ان مخطوطات میں وہ منظوم مخطوطات بھی شامل ہیں جو فنِ طب کے علم وعلاج ، اعضا، ادویہ، رنگ و نبض، اوزان اور اثر کو یہاں اپنے منفرد انداز میں پیش کرتے ہیں۔ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔ اور ان میں فارسی کے ساتھ اردو کا بھی استعمال کیا گیا ہے۔
ان کتب و مخطوطات میں علاج و ادویہ سے وابستہ تمام اہم تصانیف و تفصیلات قصائد ، رباعی، قطعہ، بند اور شعری انداز میں لکھے گئے ہیں جو کہ بہت خوبصورت ہیں۔ تحقیق کے طور پر تو یہ کام قابلِ اعتراف تو تھا ہی مقصدیت کے طور پر بھی خوب تھا۔ اولاً تو یہ فکر روشن ہوئی کہ یہ منظوم طبی کتب و رسائل منظرِ عام پر آنے کے لیے بے قرار ہیں کہ جن میں ہماری قدیم تاریخ و کارنامہ درج ہے۔
یہ مخطوطات فارسی زبان میں ہیں، مگر ان کے تراجم اردو میں کیے گئے ہیں اور انہیں میں بہت سے مخطوطات و کتب اردو و فارسی دونوں زبانوں میں ہیں ، ایسی صورت میں میرے اس مقالے کے ذریعہ راجستھان میں اردو تحقیق کا ایک حسین پہلو سامنے آیا۔
زبان وبیان کے لحاظ سے یہ منظوم سرمایہ بڑی اہمیت کا حامل ہے، ان مخطوطات کی زبان بہت سادہ اور عام فہم ہے، حالانکہ طبی اعتبار سے اس میں مفردات کے لغات ، مرکبات کی تیاری، علاج، علامات، مرض اور اسباب و اوزان وغیرہ تمام پہلوؤں پر بہت تفصیلی تصانیف موجود ہیں۔
کہاجاتا ہے کہ بارہویں صدی عیسوی سے راجستھان میں فارسی زبان کا رواج شروع ہوا، اور اس خطے کی تمام ریاستوں کی مانند ریاست ٹونک بھی اربابِ ادب اور دانشوروں کی خواہشات میں سرِ فہرست رہا اور مختلف فنون کی ترقی یہاں ہوتی رہی۔
بڑی تعداد میں یہاں شعرا، ادبا، فقہا ، حکما ، قاری ،حفاظ آکر سکونت پذیر ہوتے رہے، اس طرح باقاعدہ طور پر ریاست سے علماء، حکماء وابستہ ہوئے اور اسی ضمن میں علم طب کا سلسلہ بھی پشت در پشت جاری رہا، راجستھان میں ہی طبِ شہابی کا ایک نسخہ شیخ طالب ابن شیخ طبیب منقولہ ۱۵۹۳ء APRIٹونک میں موجود ہے، اکسیشن نمبر ۳۳۸۲ میں درج ہے کہ’’ ناگور میں حکیم شہاب الدین ابن عبد الکریم ناگوری پیدا ہوئے جنہوں نے ۱۳۸۸ء کو علم طب کا ایک منظوم رسالہ فارسی زبان میں ’’طب شہابی‘‘ کے نام سے تصنیف کی‘‘۔
’’طبِ شہابی‘‘ میں انسان کے تمام اعضاء کے امراض اور ان کا مفصل علاج بیان کیا ہے۔
بقول حکیماں ہندوستان
کہ خوں داخل تلخہ گویند شان
سہ چیز است آلات رنج بدن
شنوتا بگویم بہ پیش تو من
ان نادر منظوم مخطوطات میں حکیم امان اللہ کی تصنیف’’ ام العلاج‘‘ جو نور الدین محمد جہاں گیر بادشاہ کے عہد کی تصنیف ہے، وہیں’’ اختیاراتِ بدیعی‘‘ جیسا مخطوطہ بھی قابلِ ذکر ہے، جو بیگم ممتاز محل کے نام سے لکھا گیا ہے اور ۶۶۸ صفحات پر مشتمل ہے، یہ ہر طرح سے تاریخی اہمیت کے حامل ہیں ۔اسی فہرست میں حکیم فتح اللہ شیرازی کا ترجمہ کیا ہوا ’’ترجمہ قانونِ شیخ‘‘ بھی بڑی اہم کتاب ہے۔
ٹونک میں طبی خاندان کے سلسلے جاری تھے اور بڑے بلند پایہ اطباء و حکماء اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ریاست ٹونک کی مخصوص مطب میں ’’مطب خاص‘‘ علی حسن صاحب امروہی کا مخطوطہ، حکیم برکات احمد کا ’’مطب ہفت روزہ‘‘، مطب خاص ، مطب اصغر علی آبرو کالی بیاض وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔
مطب خاص حکیم برکات احمد صاحب کی تصنیف ہے اردو میں آغاز کیا گیا ہے، اور جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ بہت ہی خوبصورت اور قابلِ غور کتاب ہے۔ اس میں انسانی زندگی اور آخرت کے دلئے بہت ہی حسین انداز میں بیان کیے گئے ہیں اردو میں تحریر کئے گئے ایک خوبصورت نسخہ پر ذرا توجہ دیں جوکہ مطب میں APRI میں بعنوان توشۂ آخرت کے نام سے موجود ہے
حیا کے پھول صبر وشکر کے پھل
نیاز عشق کی جڑ غم کی کونپل
نہال صدق کی ڈالی اوراق
ادب کی چھال تخم حسن اخلاق
ریاضت کا اگر ہاون ہو ممکن
تو اس میں کوٹ ان کو رات و دن
کئی چلہ یہی معمول کرلے
پھر ان کو دیغچی میں دل کی بھر لے
اجاق شوق پر رکھ کر پکانا
رہے خاص تو جان اپنی جلانا
پھر ان کے چھاننے کا کر تو سامان
صفائی قلب کی صافی میں تو چھان
ہوا ہوجائے گا درد ماصی
جو چاہے امتحاں کر دیکھ عاصی
کچھ اس کی قدر شربت پر نہ جانا
یہ جتنی کھائی جائے خوب کھانا
انہیں منظوم مخطوطات میں’’ شرح رباعیاتِ یوسفی‘‘ جو کہ اصل رباعی ’’حکیم یوسف‘‘ کی ہے اور شرح عبد العلیم نصر اللہ خاں نے تالیف کی ہے بہت اہم ہے اس میں بہت ہی تفصیل کے ساتھ ہر پہلو کو بیان کیا گیا ہے یہ نظم کا ایک خوبصورت نمونہ تو ہے ہی ساتھ ہی اس میں موجود تمام امراض و علاج کا بھی بڑے منفرد انداز میں بیان کیا گیا ہے کچھ نسخے غور فرمائیے۔
ای دیدہ زد رو سردلت رنج و عنا
کرک حرکت مبن بطلب راحت را
خطمی و بنفشہ و سبوس گندم
مجموع بجوشاں و در آتش نہ پا
کئی جگہ علاج میں پوری طرح سے دواؤں اور بوٹیوں و کاڑوں کے متعلق بیان کیا ہے وہیں ادویہ کی مقدار کے سلسلے میں ان کے اوزان جیسے رتی ، تولا، ماشہ تک کا صاف طور پر ذکر ہے۔
حکیم یوسف کی ایک خاص تصنیف میں درج ہے کہ۔
کہ ایں نسخہ بہر تو کردم رقم
زت بیر ما کول و مشروب ہم
در آں دم ایں نسخہ منظوم شد
بہ ماکول و مشروب و موکول شد
ایک قصیدہ در اسماء اجناس ادویہ عن یوسفی پر مشتمل ہے جس میں ادویہ اور علاج کے متعلق لکھا گیا ہے اور تاکید کی گئی ہے کہ اگر حکیم کی ہر بات بہت غور سے سنی جائے اور دوائیں وقت پر صحیح طریقے سے لی جائیں تو ہر طرح کا مرض اور تکلیف دور کئے جا نا ممکن ہے اور یہ تمام دوائیں انسانو ں اور جانوروں سب کے لئے مختلف ہوتی ہیں اور انکا استعمال بھی الگ ہوتا ہے انکے جدا گانہ اسماء اور اوذان ہوتے ہیں ۔
گر کنی توشی بشنو از دل و جان
مشکلاتی تراسنم آسان
کنم از بہر خدمتی تو رقم
نام ہرواردی بکلک بیان
گویم اسماء ادویہ ز اجناس
کہ نبات است و معدن و حیوان
ایک منظوم رسالہ جو نبض سے تعلق رکھتا ہے میں نبض کے سریع بطی معتدل تواتر و سرعت کا فرق وغیرہ بہت خوبصورت انداز میں شعری طور پر بیان کیا ہے۔
دل چوگرم آید مزا جش روح دروی حار تر
زان سبب محتاج بردی می شود ائے پرہنر
ہم چناں شریان ہمہ مانند دل شد پرز روح
بہر دفع گرمی اورا حرکتی شد در شنوح
زاں سبب دل از ریہ برود ہوا در کند
ہم چنیں رگ ازمسام تن ہوا در برکشد
نبض مرد و زن کے عنوان سے بھی بہت مفید گفتگو کا مظاہرہ کیا ہے جس میں مرد اور عورت کی خون کی روانی ،گرمی ،تاثیر، فطرت جیسے تمام نقطوں پر بہت دلچسپی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ جو آج کے میڈیکل سائنس سے بہت آگے اور ترقی یافتہ نظر آتا ہے۔اس میں لکھا ہے کہ مرد می نبض زیادہ بڑی اور قوی ہوتی ہیں بنسبت زن کی نبض کے اسی لئے اس میں ہر کام کی طاقت ،ہمت اورمحنت کا مادہ زیادہ ہوتا ہے
نبض مردان اعظم و اقوی است از نبض زنان
زان کہ مرداں ز مزاج گرم می باشد عیاں
قوت مرداں قوی، اعضائی ایشان صلب تر
زان سبب گردد عظیم وہم قوی اے پرہنر
طب شہابی جو کہ ایک تاریخی نسخہ بھی کہا جاتا ہے اس کے منظوم حصہ ء طب میں انسان کے تمام اعضاء کے امراض اور ان کا مفصل علاج بیان کیا گیا ہے، جیسے سردرد، مرگی، علامت و علاج، فالج و لقوہ ، آنکھوں کا ناسور ، چشم پھولہ، کان ناک، منہ تمام کا ذکر کیا ہے۔لکھتے ہیں
زباد و ز تلخہ از اخلاط دان
حدوث ہمہ علت مردمان
یکی گر ازین ہرسہ گردد مزید
شود علقی اندران تن پدید
بہ نزد حکیمان فارس مگر
چہار است آلات رنج بشر
اپنے اس مقالے میں ایک نئی چیز جو سامنے آئی کہ طب میں اس پر سکون دور میں بھی ہر حالت اور وقت کا خیال رکھا گیا جسے آج انسان کی زندگی میں سکون و چین کی اور آرام کی کیا اہمیت ہے اور انسان کو ان دونوں کے درمیان کس طرح قاعدہ بیٹھنا چاہیے، تاکہ سحت خراب نہ ہو اور تمام عمر تندرستی کے ساتھ گزار سکیں ،اس کا بھی ذکر ان مخطوطات میں کیا گیا ہے۔
’’تدبیر صحت‘‘ نام سے بیان کیا ہے کہ انسان کو کتنی محنت اور کتنا آرام کرنا چاہیے، وہیں ہر رگ کا نام اور اس کا کام بھی پوری وضاحت کے ساتھ درج کیا گیاہے۔
’’رگ شباب ‘‘کے متعلق لکھتے ہیں کہ
شش رگ شباب ای نیک خواہ
مقابل نرانگشت یاپست آں
گشند آنگہ خون رحم از زنان
دگر خون زاند ام بیرون رود
زگردہ مثانہ کبدہم رود
ایک اہم علم طب پر مشتمل قدیم کتاب سامنے آئی ہے جس میں ادویہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ کتاب کا نام ’’ریاض الادویہ‘‘ ہے، مؤلف نے کتاب’’ ہمایوں بادشاہ‘‘ کو پیش کی اور اس کی مدح سرائی کرتے ہوئے کی ہے ، یہ کتاب تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
نہصد و چہل وشش گشت این رسالہ تمام
بیمن عافیت شاہ معدلت آئین
سکندر رایت و دارا نشان ہمایوں شاہ
کہ کار دانش و فضل است منبع تمکین
شہنشہی کہ خرد می نوسید القابش
سپہر لطف و کرم آفتاب دولت و دین
اس کتاب میں ادویہ مرکبہ اور ترتیب سبھی کچھ بیان کی گئی ہے کہ کس طرح سے حکیم دوائیں تیار کرتے تھے ان میں کس طرح سے ہر شے کا پوری ترکیب کے ساتھ استعمال ہوتا تھا، اور ساتھ ہی ان ادویہ کی دیکھ بھال ، جانچ اور ان کے اچھے یا خراب ہونے کا بھی بخوبی بیان کیا گیا ہے ان نسخوں میں علاج کے ساتھ دین وحدیث کا بھی کئی جگہ بیان کیا گیاہے ۔آخرت اور زندگی کے متعلق بحث کی گئی ہے اچھی زندگی کے لئے نیک ذہن ودل،نیک کردار ، اور دیندار ہونا ضروری ہے جس کا اپنی نفس پر اپنی خواہشات پر قابو ہے اسکی زندگی چین وسکون کے ساتھ گزر جاتی ہے اور آخرت سنور جاتی ہے ۔
AIPR ٹونک میں موجود ان منظوم فارسی طبی کتب و مخطوطات کی تعداد تو زیادہ نہیں ہے مگر اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے یہ بے مثال ہیں فنِ طب کے بیش قیمتی نسخے اپنے درمیان ایک طویل سیاسی معشرتی ،اخلاقی،عالمی،اورتاریخی سرمایہ پیوست کئے ہوئے ہے جو آج قارئین کو اپنی جانب غور وفکر کی دعوت دیتے ہیں۔APRI ٹونک ایک عالمی تحقیقی ادارہ ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں قدیم سرمائے کی بڑی محنت ،محبت و لائقی کے ساتھ حفاظت کی جاتی ہے تاکہ آنے والے دور میں ہر ہنر کی ان گمشدہ کڑیوں کو فراہم
کرایا جا سکے۔ َ
Dr Zaiba Zeenat
Comments
Post a Comment