Tazkirah nigaari
آزادی کے بعد راجستھان میں تذکرہ نگاری
اردو میں تذکرہ نگاری نے اردو شعر و ادب کی تاریخ ہی مرتب نہیں کی بلکہ اردو میں تنقید کی راہیں بھی کھولیں۔ اردو شعرا کے تذکرہ نگاری کا آغاز اٹھارہویں صدی کے وسط میں شروع ہوچکا تھا۔ اور شروع میں فارسی زبان میں تذکرے لکھے لگے۔ اور پھر اس کے بعد اردو زبان میں تذکرہ لکھے جانے لگے۔ اردو کے قدیم تذکروں میں ’نکات الشعرا‘ مرتبہ میر تقی میرؔ ، ’تذکرہ گلشن گفتار‘ مرتبہ حمید اورنگ آبادی، ’تحفۃ الشعرا‘ مرتبہ اکبر بیگ کاشکال، ’تذکرہ ریختہ گویا‘ مرتبہ فتح علی حسینی اور ’تذکرہ معدن نکات‘ مرتبہ قیام الدین قائم قابلِ ذکر ہیں۔
یہ تذکرے اردو کے قدیم تذکرے ہیں جو ۱۱۶۵ھ ۱۱۸۶ھ تک کے دوران لکھے گئے ہیں۔ ان میں نکات الشعرا کو اردو شعرا کا پہلا تذکرہ معنی جاتا ہے۔جو کہ فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے۔
اس کے بعد آہستہ آہستہ ارو شعرا کے تذکرے اردو میں لکھے جانے لگے۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اردو شاعروں کے تقریباً ۳۲؍ تذکرے فارسی زبان میں ہیں۔ایک تذکرہ فرانسیسی زبان میں تاریخ ادب ہندوستان کے نام سے ۱۸۱۰ء میں مرتب کیا تھا۔ اسی طرح ایک تذکرہ انگریزی زبان میں یادگارِ شعرا کے نام سے ۱۸۵۳ء میں انگریزی زبان میں مرتب کیا گیا تھا۔
اس کے علاوہ تمام تذکرے اردو زبان میں لکھے ہوئے ہیں۔ اور اردو زبان میں سب سے پہلا تذکرہ ’گلشن ہند‘ کے نام سے ہمارے سامنے آتا ہے۔ جو ۱۸۰۱ء میں لکھا گیا تھا۔ اردو کے تذکرہ نگاری کا یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہا اور ۱۸۸۰ء میں مولانا آزاد نے ’آبِ حیات‘ کے نام سے اردو شعرا کا تذکرہ لکھ کر تذکرہ نگاری میں تاریخی پہلو کو اجاگر کیا، اور اس کے بعد ارو میں تذکرہ لکھنے کی روایت تقویت پاتی رہی۔
ہمیں ان تذکروں کی تاریخ پر بحث نہیں کرنی چاہیے۔ اس لیے مولانا آزاد کے بعد جو تذکرے لکھے گئے ان کا دائرہ ملک کے گوشے گوشے میں پھیلتا رہا۔ اور تاریخی ارتقا کے ساتھ ساتھ تذکروں میں شعرا کی تعداد بھی بڑھتی رہی۔ یہی نہیں بلکہ آہستہ آہستہ راجپوتانہ کے مختلف شہروں کے شعرا کے نام بھی کہیں کہیں نظر آنے لگے۔ مگر راجستھان کی ادبی تاریخ کی یہ بدنصیبی رہی کہ شعرا کے تذکروں میں راجستھان کے ناموں کے حوالے ملنے کے باوجود اس خطے میں اردو ادب سے مطابق آزادی کے زمانے تک کوئی تحقیقی کام نہیں ہوا۔ اس کی وجہ اہلِ تحقیق کی نارسائی یا اربابِ علم و ادب کا عدم التفات اور مقامی شعرا و ادبا کی سیر چشمی کہی جاسکتی ہے اور آج ہمیں اس کا شدت سے احساس ہونے لگا ہے۔ ذرا غور تو فرمائیں کہ میر تقی میر کا ایک صاحب دیوان شاعر انیسویں صدی کے آغاز میں جے پور میں آتا ہے، اپنی زندگی کے چالیس سال یہاں گزارتا ہے اور اپنا ایک ضخیم دیوان مرتب کرتا ہے۔ جس میں مختلف اصنافِ سخن غزل، رباعی، قطعہ، مثنوی، مرثیہ وغیرہ کے علاوہ خاص طور پر چھ مثنویاں شامل ہیں ۔ میری مراد ہے ’مرزا اکبر علی بیگ گل‘ سے جن کے دیوان کا قلمی نسخہ اے پی آر آئی ٹونک کے شاغل کلیکشن کی زینت ہے، جسے ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی نے اپنی تحقیق کے اندر ’راجستھان میں اردو ادب ۱۸۵۷ء تک‘ مطبوعہ ۱۹۹۲ء میں راجستھان کا اولین صاحبِ دیوان شاعر قرار دیا ہے۔
(بحوالہ راجستھان میں اردو زبان و ادب ۱۸۵۷ء تک‘ مرتبہ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی ، مطبوعہ ثمر آفسیٹ پریس دہلی، ۱۹۹۲ء)
گلؔ کا دیوان موجود ہونے کے باوجود میرؔ کے شاگردوں میں کسی نے بھی گلؔ کا ذکر نہیں کیا اور کسی بھی تذکرہ میں گلؔ کا نام تک نہیں ملتا۔ اسے تذکرہ نگاروں کی نارسائی کہا جاسکتا ہے کہ گلؔ سے پہلے اور شعرا اور خاص طور پر اردو کے صاحب دیوان شعرا کے نام بھی سامنے آئیں اس لیے کہ تحقیقی کی راہیں کبھی بند نہیں ہوتیں۔
مولانا احترام الدین شاغل نے اپنی تصنیف’تذکرۂ شعرائے جے پور‘ میں گل کا تعارف ایک شاعر کی حیثیت سے کرایا۔ اور ان کے صاحبزادے ابوالفیض عثمانی نے صوبائی سطح پر گل کو پیش کرکے راجستھان کی ادبی تاریخ کے لیے تحقیق کی راہ کھولی۔ اسی طرح گل کے ہمعصر عظمت اللہ نیازؔ نے جے پور میں ۱۸۱۱ء میں ’قصہ رنگین گفتار‘ کے نام سے اردو نثر میں ایک مختصر داستان مرتب کی تھی۔ نثر کے نقطہ نظر سے یہ داستان راجستھان کی اولین نثری تصنیف ہے جس کا اصل نسخہ اے پی آر آئی ٹونک کے شاغل کلیکشن میں موجود ہے۔ اس میں نثر کے علاوہ عظمت اللہ نیازؔ کی شعری تخلیقات بھی شامل ہیں۔ گویا گلؔ کے ہمعصر شعرا میں جے پور میں نیازؔ بھی موجود تھے مگر کسی تذکرے میں ان کا ذکر نہیں ملتا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس صوبے کی ادبی تاریخ پر تشکیل راجستھان سے قبل کوئی تحقیقی کام نہ ہونے کی وجہ سے ادبی تاریخ پر گمنامی کے پردے پڑے رہے۔
راجستھان میں انیسویں صدی ختم ہوتے ہوتے جابجا شعر و ادب کے چھوٹے بڑے گہوارے نظر آنے لگے تھے۔ چنانچہ جے پور ، ٹونک، بھرتپور، جودھپور، بیکانیر اور جھالاواڑ وغیرہ میں شعر و سخن کے نغمے گونجنے لگے تھے۔اسی دوران جودھپور میں ’تذکرہ شعرائے ہنود‘ منشی دیوی پرشاد بشاش نے ارو کے ہندو شعرا کا ایک تذکرہ لکھا تھا، اگرچہ وہ تذکرہ راجستھان میں لکھا گیا اور اس میں راجستھان کے چند غیرمسلم شعرا کا بھی ذکر ہے لیکن اول تو وہ تذکرہ صرف راجستھان کے شاعروں کا نہیں ہے۸، دوسرے اس میں صرف غیرمسلم حضرات کو شامل کیا گیا ہے، اس صورت میں راجستھان کے شعرا کے تذکروں میں تذکرہ شعرائے ہنود کو شامل نہیں کیا جاسکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ ہندوستا ن کی آزادی کے بعد مارچ ۱۹۴۹ء میں جب موجودہ صوبہ راجستھان کی تشکیل عمل میں آئی اور اسی صوبے کی قدیم دیسی ریاستیں راجستھان میں مدغم کردی گئیں اس کے بعد پہلی بار مولانا احترام الدین شاغل صاحب نے ۱۹۵۵ء میں تذکرہ شعرائے جے پور لکھا تھا جس کا اصل مخطوطہ بخط مصنف اے پی آآئی ٹونک کے شاغل کلیکشن میں موجود ہے۔ یہ تذکرہ ۱۹۵۸ء میں یونین پریس دہلی میں چھپا تھا۔ اصل مخطوطے کو سامنے رکھ کر دیکھا جاتا ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مصنف نے غالباً اصل مسودے کی ضخامت کو کم کرنے کے بعد تذکرہ شائع کیا گیاہے۔اگر اس میں حذف کردہ میٹر کو شامل کردیا جائے تو اس کی ضخامت بہت ہوجائے گی۔
تذکرہ شعرائے جے پور راجستھان میں آزادی کے بعد تذکرہ نگاری کا نقشہ اول ہے۔
تذکرۂ شعرائے جے پور کی اشاعت کے بعد شرف الدین یکتا نے ’بہارِ سخن‘ کے نام سے جودھپور کے شعرا کا تذکر مرتب کیا تھا اور غالباً اسی دوران وہ پاکستان چلے گئے تھے، وہاں رہ کر انہوں نے نظرثانی کے بعد چھپوایا تھا۔
تذکرہ بہارِ سخن گالکل اسی نوعیت کا ہے جس نوعیت کا تذکرہ شعرائے جے پور ہے تذکرے کے مرتب نے بڑی تحقیق و تلاش سے جودھپور کے ادبی تاریخ مرتب کی ہے۔ اور جودھپور میں اردو شعر و ادب کی تحقیق کی راہیں ہموار کی ہیں۔
تفصیلات: ۱۹۶۵ء میں راجیہ ساہتیہ اکیڈمی اودے پور نے پروفیسر پریم شنکر سری واستو سے راجستھان کے شعرا کا ایک تذکرہ دیوناگری رسم الخط میں مرتب کراکر شائع کیا تھا۔ اس تذکرہ میں راجستھان کے مختلف اضلاع کے ان شعرا کامختصر حال اور نمونہ کلام شامل ہے جو تذکرے کی ترتیب کے زمانے میں حیات تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس تذکرے میں راجستھان سننے کے بعد شعرا کا ذکر کا ہے جن میں بزرگ بھی شامل ہیں اور نوجوان بھی اور ایسے شاعر بھی جن کا تخلیقی سفر راجستھان کی تشکیل کے بعد شروع ہوا۔
اسی دوران راجستھان محکمۂ تعلیم سے وابستہ اردو کے شاعروں کا ایک تذکرہ ’دامانِ باغبان‘ کے نام سے پریم سنگھ کمار اور عثمان عارف نے مرتب کیا تھا۔ جو شائع ہوچکا ہے۔ اس تذکرے میں صرف ان شعرا کا ذکر ہے جو حکومت راجستھان کے محکمۂ تعلیم سے اس زمانے میں وابستہ تھے۔
اسی طرح جے پور کے شعرا کا ایک تذکرہ راجستھان اردو اکیڈمی کی جانب سے شائع کی کرنے کی غرض سے ڈاکٹر اے ایف عثمانی نے مرتب کیا تھا اور اس بات کا اہتمام کیا تھا کہ تذکرے میں شامل شعرا خود اپنا تعارف کرائیں اور اپنا منتخب کلام عنایت فرمائیں۔ تذکرہ کا تقریباً پورا میٹر جمع ہوچکا تھا ، اس سے پہلے نظر ثانی کے لیے راجستھان اردو اکیڈمی کی مجلس منتظمہ کے اراکین کے مشورے سے اکیڈمی کے ایک ذمہ دار رکن کو دیا گیا ، اس زمانے میں ڈاکٹر عثمانی اردو اکیڈمی کے سیکریٹری تھے، مگر اس تذکرہ کی اشاعت شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکی اس لیے کہ جن صاحب کو تذکرہ کا مسودہ دیا گیا وہ مہینوں اور برسوں تک اپنی ذمہ داری کو پورانہیں کرسکتے اور یہ مسودہ ان کے پاس ہی رہ گیا۔
اسی دوران جے پور کے شعرا کا ایک مختصر تذکرہ ایم محمود خان صاحب نے مرتب کیا، تذکرہ و کلام معاصر سخن ورانِ جے پور کے نام سے مرتب کیا تھا جسے انجمن فروغ اردو نے ۱۹۸۹ء میں خوجہ پریس دہلی سے شائع کرایا تھا ۔
تذکرہ کا مقدمہ ڈاکٹر ابوالفیض عثمانی نے لکھا ہے اور تذکرہ کے بارے میں کہا ہے کہ یہ تذکرہ جے پور کی ادبی تاریخ کا ایک گراں قدر کارنامہ ثابت ہوگا۔
معاصر سخن ورانِ جے پور کی اشاعت کے بعد راجستھان اردو اکیڈمی کی جانب سے یکے بعد دیگرے حسب ذیل تذکرے منظر عام پر آئے اور ان کے ذریعہ راجستھان کی اردو تاریخ بھی سامنے آئی۔
معاصر نمائندہ شعرائے اجمیر مرتب سید فضل المتین
معاصر شعرائے جودھپور مرتب ش ک نظام
تذکرہ شعرائے بیکانیر
تذکرہ شعرائے اودے پور
تذکرہ شعرائے کوٹہ مرتب عقیل شاداب
ان تذکروں کے علاوہ بانسواڑہ سے اردو شعرا کا ایک مختصر تذکرہ ہندی زبان میں ڈاکٹر شاہد میر نے مرتب کیا جو شائع بھی ہوا۔مذکورہ بالا تذکروں کے ساتھ ساتھ میں ایک ایسے تذکرے کی جانب سے بھی توجہ مبذول کرانا چاہوں گی جو تذکرہ کے نام سے تو نہیں لکھا گیا لیکن بنیادی طور پر وہ ایک تحقیقی تذکرہ ہے۔میری مراد ڈاکٹر اے ایف عثمانی صاحب کے پی.ایچ.ڈی. کے تحقیقی مقالہ سے ہے۔ جس کا عنوان ہے راجستھان میں اردو زبان و ادب کے لیے غیر مسلم حضرات کی خدمات۔
یہ تحقیقی مقالہ عثمانی صاحب نے اس زمانے میں مرتب کیا تھا جب راجستھان میں اردو میں پی ایچ ڈی اور ایم فل تو کیا ایم اے کا بھی تصور نہیں تھاان کو راجستھان یونیورسٹی نے راجستھان کے باہر کے کسی گائڈ کی نگرانی میں پی ایچ ڈی کا مقابلہ مرتب کرنے کی اجازت دی۔ ۱۹۷۰ء میں ان کو راجستھان یونیوسٹی جے پور نے پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا تھا اور ان کا یہ مقالہ ۱۹۸۵ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوگیا تھا۔ راجستھان میں صوبائی سطح پر اردو تحقیق کے لیے عثمانی صاحب کا مقالہ نقشِ اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مقالے میں عثمانی صاحب نے جہاں ایک طرف راجستھان میں فارسی زبان و ادب کی ترویج اور اس کے ذریعہ اردو زبان و ادب کے فروغ پر مدلل روشنی ڈالی ہے اور ریاست وار اردو زبان و ادب کے آغاز و ارتقاپر بحث کی ہے وہیں دوسری جانب ریاست وار غیرمسلم شعرا و ادبا کے حالات ، شاعروں کی شعری تخلیقات اور ادیبوں کی نثری تصانیف و تالیفات کا وضاحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ اس تذکرے میں راجستھان میں اردو شعر و سخن کے آغاز و ارتقا کے زمانے سے مقالے کی ترتیب کے زمانے تک ہر ریاست کے غیرمسلم شعرا کا ذکر اور نمونہ کلام شامل ہے۔ اگر صرف اسی حصہ کو اس مقالے سے الگ کرلیا جائے تو یقیناًراجستھان کے غیرمسلم شعرا کا ایک مکمل تذکرہ بن جائے۔
****
از : ڈاکٹر زیبا زینت زیباؔ
article apko kesa laga aur kya ye apke liye mufeed sabit huaa to pl comment kijiye
ReplyDelete