अफसाना दानिश्कदा دانش کدہ
دانش کدہ
ہماری قوم کے سپہ سالار ہیں یہ طالبِ علم...... اور ہمارا فرض ہے کہ ہم انکے ہنر مزید نکھاریں ،
ان کے درمیاں دہکتی علم کی آگ کو ہوادیں.....حوصلہ دیں..... اور ان کی راہنمائی کریں تاکہ زندگی کی تلخ ہوائیں ان کی جلتی ہوئی اس آگ کو بجھا نہ سکیں.....ہمیں چاہیے جن طلبہ میں صلاحیت، قابلیت اور جذبہ ہے ، ہم قدم قدم پر ان کے لیے چراغ روشن کریں۔
پروفیسر پرویز کی اس پُراعتماد تقریر نے جلسہ ہال کو تالیوں کی گونج سے پُر کردیا۔ طلبہ اپنے شعبہ کے اس استاد کی ایسی مؤثر تقریر پر قربان ہوئے جارہے تھے۔ استاد کی ایسی انقلابی تقریریں اکثر و بیشتر طلبہ کے ذہن کو متاثر کرتی ہیں اور انہیں اپنے کامیاب مستقبل کی جانب راغب کرتی ہیں ۔ماحول میں خوشی اور مسرتوں کی آگہی تھی......
آج کالج میں ابتدائی تقریب کا روز تھا کہ جہاں نئے سیشن کے آغاز کے ساتھ آج ہی طلبہ کی ایک دوسرے سے اول اول ملاقات کا بھی خوبصورت موقع تھا۔ اس تقریب کے لیے جلسہ گاہ کوخوشنما پھولوں اور مختلف رنگوں کے پردوں سے آراستہ کیا گیا تھا، ماحول خوشنما تھا، نوجوان چہروں پر مسرتوں کی کلیاں تھیں اور اتنے بڑے کالج میں درس حاصل کرنا انکے لئے باعثِ فخر تھا۔ تقریب کا آغاز ہو چکا تھا اور تمام اساتذہ و طالبِ علم اپنی منتخب سیٹ پر بیٹھے سماعت میں مشغول تھے ۔مائک پر صدر شعبہ پروفیسر پرویز اپنی محققانہ و مخلصانہ تقریر کے ذریعہ ماحول کو علم و ہنر کی جانب مرکوز کررہے تھے جسے طبقہء نوجواں ہمہ تن گوش بغور سماعت فرمارہا تھا۔
طلبہ کا اپنے استاد پر اتنا ہی حق ہے جتنا ایک اولاد کا اپنے باپ پر۔
پروفیسر پرویز نے پھر کہنا شروع کیا
یہ ہماری نسلِ نو ہے اور اسی کے شانوں پرہمارے مستقبل کی ذمہ داری ہے۔
ان کی ترقی، کامیابی ہماری محنت پر منحصر ہے اس لیے میں آپ سبھی طالبِ علم سے یہ عرض کر نا چاہتا ہوں کہ آپ بلاتکلف ہم سے رابطہ رکھئے،اپنے مسائل سے ہمیں روشناس کرائیں اور ہر طور اس رشتہ کو جلا بخشیں تاکہ ہماری قوم ترقی کرسکے، ہمارا ملک ترقی کرسکے۔
ایک دفعہ پھر پروفیسر پرویز کے اعلان پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا......
تقاریر کا دور ختم ہوچکا تھا اور طالب علم جن میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہی موجود تھے، اپنے اساتذہ سے رسمی ملاقات میں مصروف ہوگئے ۔گفتگو کے سلسلے جاگ اٹھے ۔
لیکن اب بھی اس تقریب میں پروفیسر پرویز اپنی نرالی اور قابلانہ ادا کے ساتھ طلبہ کے لیے باعثِ فخر و ستائش شخصیت کی حیثیت حاصل کر چکے تھے، بالخصوص لڑکیاں تو ان سے کچھ زیادہ ہی متاثر نظر آرہی تھیں۔ شاید اس لئے بھی کہ اس قدر مخلصانہ انداز کا مظاہرہ اساتذہ کم ہی کر پاتے ہیں اور پروفیسر کا انداز ایک استاد سے زیادہ بظاہردوستانہ مزاج کاوالا تھا۔
سرآداب......ہمارا نام...... نازیہ ہے اور یہ فرحانہ، شگفتہ، ذہین، نبیلہ اور حنا ہیں۔ہم فرسٹ ایئر سے ہیں، ۔
نازیہ ایک خوبصورت لڑکی تھی اور بہت تہذیب کے ساتھ اس نے سب سے متعارف کرایا۔اس کی آواز میں ایک خاص کشش تھی۔ پروفیسر پرویز نے مسکراکر طائرانہ نگاہ ڈالی اور خاموش ہوگئے۔ لڑکیاں خاصی حیران ہوئیں پھر معزرت لے کر رخصت ہونے لگیں، کہ یکایک پروفیسر پرویز کی صدا سنائی دی۔
نازیہ......ارے بھائی آپ لوگوں نے ناشتہ کیا یا نہیں.....خاموش لڑکیوں کے چہرے گلاب سے کھل گئے.....ایک ساتھ بول پڑیں.....جی سر ہم نے لے لیا شکریہ ......یک دم حاصل ہوئی اس توجہ سے معصوم دوشیزائیں خوش ہو گئیں اور ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرانے لگیں ۔
آپ فرمائیں سر ...... نازیہ نے بہت شائستگی سے کہا تو پروفیسر مسکرا دئے۔
ابھی ایک دو روز میں وظیفہ کے فارم بھی پُر کیے جائیں گے آپ سب بھی اس سے استفادہ کیجئے ۔
پھر ذرا تھم کر پروفیسر پرویز دوبارہ کہنے لگے
ہمارا فون نمبر لے لیجئے، رابطہ کیجئے گا.....
پروفیسر صاحب کے فرمانے کی دیر تھی کہ .....لڑکیوں نے آناً فاناً قلم سنبھالا اور پرفیسر پرویز کے بتائے نمبر لکھنے لگیں ۔
شکریہ ادا کرتی ہوئیں دوسری سمت روانہ ہو گئیں۔
پروگرام ختم ہوچکا تھا، لیکن لڑکیوں کے درمیان پروفیسر پرویز ایک ہیرو کی سی اہمیت کے ساتھ مقبول ہوچکے تھے......کمسن لڑکیاں کھلکھلاکر ہنس رہی تھیں اور اپنی ہی شاداب گفتگو میں محوہ تھیں....یہ پہلا موقع تھا جب اسکول کی پابندیوں سے باہر آکر ان لڑکیوں نے کالج کی خنک وبے فکر فضا میں پرواز کی غرض سے اپنے نازک گلابی پر پھیلائے تھے۔
کتنے اچھے ہیں پروفیسر...واقعی بہت اچھے اور مخلص ہیں....
نازیہ تم ہی فون کرلینا سر کو پلیز......فرحانہ نے عاجزانہ لہجے میں کہا.......
تم سب بہت عجیب ہو یہ کیا ہے بھائی! جب کبھی دیکھو تمام ذمہ داری ہمارے ہی سر کیوں ڈال دیتی ہو.......!
تعارف کا کام بھی ہمارا.......اب فون بھی ہم ہی کریں....... نازیہ نے شوخی کے ساتھ کہا.
پلیز نازیہ....خدارا مان جاؤ...... دیکھو نا نازیہ تم ذرا بات کرنے میں ماہر ہو نا ماشااللہ.........لڑکیاں نازیہ سے اصرار کرنے لگیں تو وہ بھولی بھی راضی ہوگئی....
جلسہ کوگزرے تین روز ہو چکے تھے۔ نازیہ نے بہت مطمئین ہو کر پروفیسر پرویز کو فون کیا....
جی پروفیسر پرویز صاحب ! آداب... سرہم نازیہ عرض کررہے ہیں۔
ہاں.....ہاں..... کہئے پروفیسر پرویز نے آغازِتعارف ہی کہنا شروع کر دیا
کیسی ہو نازیہ...... اور تمہارا گروپ کیسا ہے.....
کلاس لی یا ابھی تک مزہ ہی چل رہا ہے......پروفیسر نے شوخی کے ساتھ کہا....
نہیں سرآج کلاس لی تھی.....نازیہ نے آہستہ سے جواب دیا
کہو کیا بات ہے......؟
سر .......وہ.......دراصل.........ہمیں اسکالرشپ سے متعلق بات کرنی تھی.......
ہاں تو ہوجائے گی........ تم دو دِن بعد فون کرنا.......
جی سر، شکریہ.......خدا حافظ......
اس گفتگو کے بعد نازیہ ہر تیسرے چوتھے روز بہت اپنائیت سے پروفیسر کو فون کرتی اور اپنے محترم استاد کی آج کل کے جواب سے خاموش ہوجاتی وہیں کلاس میں لڑکیاں بلا ناغہ نازیہ سے دریافت کرتیں اور وہ واقعہ بیان کردیتی......
وظیفے کے فارم جمع کروانے کی تاریخ ختم ہورہی تھی تمام لازمی فورملٹیز بھی آخری مرحلہ پر تھیں ،وہیں لڑکیوں کی بے چینی میں بھی مزید اضافہ ہورہاتھا۔
نازیہ جو کہ ایک غریب خانوادے سے تعلق رکھتی تھی اس کے لیے یہ وظیفہ بیحد ضروری تھا، وہ ایک سنجیدہ طلبہ تھی اور اسے علم و ہنر سے خاصی محبت تھی اپنے گھر میں وہ تین بہنوں و دو بھائیوں میں سب سے چھوٹی تھی لیکن فقط وہ ہی تنہا لڑکی تھی جو کہ کسی طور اپنی تعلیم جاری رکھے تھی ورنہ تو گھر کی خستہ حالی اور غربت کی دیمک نے اسکے دیگر بہن بھائیوں کو ہاتھوں سے کتابیں چھیں کر غرق کر دی تھیں ......لہٰذا اس کے لئے یہ وظیفہ ایک بڑا سہارا تھا۔
اس نے پھر ایک دفعہ پروفیسر پرویز کو فون کیا....
ہاں کون......نازیہ.......
ارے سوری محترمہ....میں ذرا مصروف تھا بس اسی لیے تمہیں وقت نہیں دے پارہاتھا...... پروفیسر کی صدا سنائی دی....
سر دراصل اس وظیفے کی ہمیں بہت ضرورت ہے......ہماری تعلیم جاری رکھنے کا یہی ایک آخری ذریعہ ہے.........اب تک ہم نے ہمیشہ اوّل درجہ سے ہر امتحان پاس کیا ہے......اور سر ہم نہیں چاہتے کہ ہماری غریبی کی وجہ سے ہماری یہ راہیں ہم سے دور ہوجائیں.....اور ہم اپنی منزل نہ پاسکیں..... سر پلیز ......آپ تو سب سمجھتے ہیں...... آپ کی تقریر نے ہی ہمیں حوصلہ دیا تھا....... سر پلیز آپ ذرا سا وقت دیں تو ہماری الجھن ختم ہو جائیگی آپ صرف فارم پر دستخط کر کہ اسے چیک کر دیجیے پلیز.......!
نازیہ کی آواز روہانسی ہوگئی.......
ارے نازیہ دل چھوٹا نہیں کرتے.......چلو ٹھیک ہے، اب بس سمبھالو خود کو، پروفیسر پرویز نے مروت و شفقت سے کہا....
نہیں سر ہم ٹھیک ہیں......
ایک کام کرو ، تم کل شام ۴ بجے میرے روم میں فارم لے کر آجانا، میں دیکھتا ہوں کیا تفصیلات ہیں........ پریشان نہیں ہونا بالکل.......بے فکر ہوکر آجانا ٹھیک ہے.......۴ بجے
جی سر آپ کا بہت بہت شکریہ.......میں وقت پر حاضرہوجاؤں گی........نازیہ نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فون رکھ دیا.
دوسرے دن وقت پر وہ کالج جا پہنچی......ابھی ساڑھے تین ہی ہوئے ہیں، خود سے بڑبڑاتی ہوئی وہ پروفیسر پرویز کے کمرے کی جانب بڑھ رہی تھی کہ ایک لڑکی باہر ہی مسکراتی ہوئی نظر آئی.......
ہیلو.......اس لڑکی نے مسکراکر کہا.....
پروفیسر صاحب اندر ہیں، نازیہ نے دریافت کیا.......نہیں ہمیں نہیں معلوم ابھی تو شایداندر کوئی نہیں ہوگا...... ، میں بھی کسی کی منتظر ہوں.......دراصل.....وہ مزید کچھ اورکہتی نازیہ جلدبازی میں کلاس کی طرف دوڑ گئی۔
سوا چار ہوچکے تھے، پروفیسر پرویز اپنے کمرے میں مصروف تھے عمارت کا سب سے کونے کا یہ کمرہ سکون کی غرض سے پروفیسر پرویز نے اپنے لئے منتخب کیا تھا .......
. کسی نے دروازے پر دستک دی...اس وقت روز لائٹ جانے کا معمول ہے، شہر میں بجلی کٹوتی کا دور جاری ہے......
کون نازیہ.......اندر آجاؤ.....
اک سایہ کمرے میں داخل ہوا......
کھڑکیاں اب بھی بند تھیں، کمرہ سیاہی کے آغوش میں تھا لیکن نا جانے کیوں پروفیسر ہاتھ میں ایک کتاب تھامے ٹیبل پر دراز تھے اور نگاہیں کہاں کھوئی تھیں یہ بھی گمان سے باہر ہو رہا تھا..
اتنی تاخیر کیسے ہوئی آنے میں نازیہ.......
لڑکی نے کچھ جواب نہیں دیا....
خیربتاؤ......کیا بات ہے تم اتنی پریشان کیوں........
تم جیسی لڑکیاں پریشان ہوتی ہیں تو مجھے بہت رنج ہوتا ہے۔
پروفیسر ٹیبل سے اتر کر سائے کے قریب آنے لگے۔کمرے میں بیحد سیاہی تھی، صرف سایوں کا بھرم باقی تھا۔
پروفیسر لڑکی کے بہت قریب اس کے روبرو کھڑے ہوگئے کہ سانسوں کی آمد و رفت کے ساتھ تاب بھی محسوس ہونے لگی، جسم کی مہک احساس کے بطن پر ٹکرانے لگی ۔ پروفیسر نے اپنا ایک ہاتھ لڑکی کے کاندھے پر رکھا اور شوخیانہ لہجے میں کہا۔
نازیہ تم ذرا بھی غمزدہ مت ہونا.......میں ہوں نا.....
میں تمہارا وظیفہ، تمہاری کتابیں، نوٹس اور مخصوص ضروری سوالات کی بھی ذمہ داری لیتا ہوں، بس تم پریشان مت ہو......!
لڑکی کا جسم کانپنے لگا سانسوں کی حرکتیں تبدیل ہوئیں، گردن پر پسینہ کی بوندیں در آئیں ، بازوؤں میں سہرن تیز ہوچلی تھیں اور دھڑکنوں کی تیزرفتار میں خوف بھی شامل ہو چکا تھا تھی۔
گھبراؤ مت......... میں تمہاا دوست ہی ہوں، تم کتنی خوبصورت ہو نازیہ میں نے پہلی مرتبہ جب تمیں دیکھا تھا تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ بہار کی پہلی بارش کے بعد کوئی حسین گلاب کھلا ہے ۔
خوبصورت چہرا ستواں ناک لہراتے بال اور اس پر یہ تمہاری دلکش مسکراہٹ میں کیا کروں ........
کس طور خود کو تم سے دور رکھوں ......
پروفیسر کی آواز لہرا رہی تھی اور تاریکی میں بھی پروفیسر کی ہوس نے چہرے دکھانے شروع کردیے تھے۔ پروفیسر پرویز کے ہاتھوں کی انگلیوں نے لڑکی کی گردن پر رقص کرنا شروع کیا ، ان کی ہتھیلی گردن سے ہوتی ہوئی کمر تک سفر طے کرچکی تھی۔لڑکی کانپ رہی تھی، آنکھوں سے آنسو رواں تھے، گرم آنسوؤں کے درمیاں واقع سسکیاں ماحول کو خوفناک تصویر میں تبدیل کر رہی تھیں۔وہ قریب ترہوچکے تھے اور دونوں بانہوں میں سایہ قید ہی ہونے والا تھا کہ دروازہ سے کوئی اندر داخل ہوا اور بیساختہ ہی کمرہ کی لائٹ آن ہوگئی،
پروفیسر پرویز کے جسم میں بجلی کوند گئی وہ پسینہ میں شرابور ہوگئے، زبان حلق میں اٹک گئی اورآنکھیں پتھراگئیں۔
نغمہ .............. تم ............!
ہوس میں کھوئے پروفیسر کی باہوں میں نازیہ نہیں بلکہ یہ لڑکی ان کی اپنی بیٹی نغمہ تھی اور دروازے سے داخل ہوتی نازیہ حیران کھڑی تماشہ دیکھ رہی تھی ... . . نغمہ نے ایک جھٹکے سے بپروفیسر پرویزکی بانہوں سے خود کو آزا د کیااور چیخ اٹھی.......
پاپا.....کیا ہوس کے اندھے کو اپنی بیٹی دکھائی دیتی ہے، گر نہیں تو مجھ میں اور نازیہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔
وہ آپ کی بیٹی نہیں لیکن آ پ کی بیٹی کی طرح تو ہے.........
کیا شاگرداولاد نہیں .......
کیا اپکی خودی ،ایمان ،غیرت سب خاک ہو چکے ہیں مر چکے ہیں ......
نغمہ................... خا...موش......... ہو جاؤ.........!
گر آپنے اپنی ہر غیرت دفنا ہی دی ہے تو مجھے بھی نوچ ڈالئے .... مار دیجیئے مجھے....پروفیسر پرویز کھا جائیے مجھے
لعنت ہے آپ پر اور آپ کے عہدے پر .......
نغمہ چیخ رہی تھی اپنے باپ کے اس شیطانی چہرے کو دیکھ کر اسکا دل پھٹ گیا تھا اور وہ روتی ہوئی باہر دوڑ گئی.......
پروفیسر پرویز کے دماغ میں دھماکے ہورہے تھے، جسم مفلوج ہوچکا تھا،
ہوس کا بھوت انہیں اندر ہی اندر نوچ رہا تھا اور وہ اپنی ہی بیٹی کے نشتر سے زخمی تھے،وہیںیہ سوچ سوچ کر غرقِ ندامت ہوئے جارہے تھے .......
گر لائٹ روشن نہ ہوتی تو آج کیا ہوا ہوتا.........؟
از:ڈاکٹر زیبا زینت
جے پور
Comments
Post a Comment