فون کال Afsana Phone call

فون کال موسم نے اپنے مزا ج میں نہ تلخی کو شامل کیا تھا نہ سرد ہواؤں سے ہی ناطہ جوڑا تھا ۔ ایک سہانہ گلابی موسم شہر کو اپنے آغوش میں لیے تھا ۔ کہنے کو اس ماہ میں سردی کی آمد کا انتظار ہوتا ہے لیکن شاید موسم بھی انسانی جذبوں کی طرح اپنے مطابق تبدیل ہونے لگے ہیں جب جی چاہا محبت کی گرمی کا احساس کرادیا اور جب دل کیا سرد حساس زندگی سے دامن ترکرلیا۔ موسم کی یہ دلفریبی اب اکھرنے لگی تھی۔۔۔بس یہی ماحول، یہی زندگی۔۔۔ شام کے ساڑھے پانچ بجے تھے اور اسماء اسٹڈی میں بیٹھی کتابیں نہار رہی تھی یا یوں کہیں کہ کسی کتاب سے کسی موضوع سے دلجوئی کرنے کے فراق میں تھی۔ فون کی گھنٹی بجی تو سناٹے کی گرہ کھل گئی۔فون سامنے کی ٹیبل پر رکھا چیخ رہا تھا اور اسما اُکتائی ہوئی اس پر غصہ کی نظر ڈال رہی تھی، شاید اس لیے کہ پورے سوا گھنٹے کی محنت کے بعد اب جاکر یہ ڈِسائڈ کیا تھا کہ کون سی کتاب پڑھوں۔ کرسی سے اُٹھی تو پین ٹیبل پر سے گر گیا۔ سائڈ کے کچھ کاغذ جو بے ترتیب رکھے تھے نیچے پھسل گئے۔ کسی طرح جلدی سے فون اُٹھایا اور بغیر نمبر دیکھے ہی سوال کرڈالا ، جی کون؟۔۔۔۔۔۔کون صاحب فرما رہے ہیں ۔۔۔ و...