Afsana Mushkil bohot hai مشکل بہت ہے



افسانہ


از:ڈاکٹر زیبا زینت 

جے پور



مشکل بہت ہے


دوپہر کا وقت تھا اور غالباََ ڈھائی بج رہے تھے ۔ مارچ کی السائی دھوپ کمرے کی دہلیز پر ڈیرا ڈالے مسلط  تھی۔ سامنے آنگن میں تناور نیم کا درخت اپنی جواں بانہوں میں پرندوں کو سمیٹے پر کیف صداؤں میں مدہوش و مسرور تھا۔ پرندوں کا ناتہ بھی درکھتوں سے کچھ اسی طرح کا ہوتا ہے جیسا ماں کا نو عمر بچے سے ہوتا ہے ۔۔سمیٹ کر باہوں میں جیسے دنیا کے ہر رنج و غم سے باز کر دیتی ہے ۔بالکل اسی مانند یہ درخت بھی اپنی شاخوں کی باہوں میں معصوم پرندوں کو اطمنان سے سلا دیتے ہیں ۔وہیں ننہی شریر گلیہریاں وہ جیسے شریر بچوں جیسی ۔ سارا دن یہی سب تو ہوتا ہے اس بھولے نیم پر ۔ میں باورچی خانہ میں جو کہ تقریباََ میری کامل حکومت ہے پر نگاہ داشت میں مصروف تھی...... روٹیوں کے کٹوردان کی جانب نگاہ کی تو دیکھا کہ اس میں تین روٹیاں باقی ہیں۔ کھانے سے سبھی اہلِ خانہ فارغ ہو چکے ہیں تمام نے کھانا کھا لیا ہے ۔ زرینا بووا بھی اپنے کاموں سے فارغ ہو کر گھر جا چکیں ۔اب فقط میں ہی باقی ہوں ۔ ان روٹیوں میں بھی د روٹیاں و تازہ ہیں اور ایک باسی ہے....
پلیٹ لے کر جیسے ہی تازہ روٹیوں کی جانب اپنا ہاتھ بڑھایا تمام جسم میں بے ساختہ سہرن در آئی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے میں کوئی غلطی پر آمادہ ہوں ۔دل میں عجیب و غریب کیفیت نے دستک دی۔ تاہم ایک خیال ماضی کی درسگاہ سے مسافر کی صورت میرے وجود کے روبرو آ کرکھڑا ہوگیا۔ 
باورچی خانہ میں اس دوران شاملِ حال کوئی موجود نہیں تھا۔ اس وقت تو گھر میں بھی کوئی فرد نہیں تھا ، پھر کیوں اِک بیچینی نے میرے ہاتھوں کی انگلیوں کو غیر شعوری طور پر سکوڑ دیا......
ایسا تو ہر گز نہیں کہ میری انگلیوں کو نرم و تازہ روٹی کا لمس منظور نہیں.... پھر کیوں یہ اضطراب یہ الجھن شاید میں اپنے ہی دائروں میں کہیں گشت کر رہی تھی اور خیابانِ ماضی میری نگاہوں میں مچلنے لگے........
امّی میں نہیں کھاتی یہ باسی روٹی اور بچا ہو اسالن..... کتنی تلخی سے جواب دے کر میں نے ناک منہ سکوڑے تھے ۔
ارے یہ کیا حرکت ہے فوزی کھانے سے کوئی ایسے نخرے کرتا ہے........کھالو چپ چاپ، صبح کی ہی تو روٹی ہے ۔امی نے مدھم آواز میں ہڑکا کر کہا تو میرا پارہ مذیدچڑھ گیا تھا۔
کیا امی روز روز آپ مجھے ہی باسی روٹی کیوں کھلاتی ہیں......بھائی کو بھی تو دیا کریں........ مجھے نہیں اچھی لگتی۔
کیوں کیا خرابی ہے اس روٹی میں کیڑے پڑے ہیں یا پھپھوند نظر آرہی ہے ۔امی نے غصہ میں تمتما کر کہا تو ذرا کو ہوش ٹھکانے آنے لگے ۔
امی کا غصہ سب جانتے تھے ویسے تو وہ ابا کے سامنے بے حد خاموش رہتی تھیں مگر بعض دفعہ تو ابا کو بھی سنا دیتیں تھیں پھر ہماری کہاں مجال ۔
آہستہ آہستہ حلق سے نوالے نگلنے لگی، نوالہ کیا کیکٹس نگل رہی تھی جیسے، آدھا ادھورا کھانا کسی طور کھاکر دسترخوان سے اٹھنے لگی تو امی کی صداپھر سنائی دی ۔
فوزی یہ بات اچھی نہیں ہے بیٹی...... اللہ جو دے خوش ہوکر کھانا چاہیے........امی نے نرمی اختیار کی تو غبار پھوٹ پڑا میرا اور آنکھوں میں ڈھیروں آنسو بھر گئے شاید اس لئے کہ ماں کی شفقت ہوتی ہی اتنی موثر ہے کہ دل پگھل کر آنکھوں میں سمٹ آتا ہے اور اشک بن کر بہنے لگتا ہے۔میں بھی گویا اسی کیفیت سے دوچار تھی رونے لگی اور فرطِ جزبات بکھر کر کہنے لگی۔
ہاں اللہ مجھے ہی باسی روٹی دے ۔میں ہی مظلوم انہیں کھاؤں ، کسی دوسرے کو تو نہیں ملتیں اور اس پر ڈانٹ بھی سناتیں ہیں آپ۔ کہہ کر اور زور زور سے رونے لگی۔ اس وقت مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ نہ جانے دنیا کا کون سا سنگین و جابر ظلم مجھ پر کیا جا رہا ہے۔ امی خاموش سن رہی تھیں یا پھر شاید وہ موازنے میں تھیں ۔ ہولے سے انکے لب کشا ہوئے۔
تو کیا ہم نہیں کھاتے....... اور بٹیا اتنا بڑا مسئلا بھی نہیں ہے یہ کہ جسے تم طول طویل کئے جا رہی ہو ۔امی نے پیار سے کہا۔ تو میرا پارا مزید چڑھ گیا۔
آپ کو اچھی لگتی ہے تو آپ کھایا کریں روز روز مجھے نہیں کھانی ۔ اور پیر پٹکتی ہوئی سائبان میں رکھی چوکی پر جا بیٹھی۔
اکثر جب میری باتوں کو سمجھا نہیں جاتا تو مجھے بے حد غصہ آیا کرتا ،مجھے ایسا محصوص ہوتا جیسے جان بوجھ کر مجھ سے بدلے لئے جا رہے ہیں ، شایدیہ عمر ہی ایسی ہے کہ جب ہر سلجھی بات الجھے جال سی نظر آتی ہے ۔ میں سائبان میں بیٹھی جانے کیا بڑبڑانے لگی ۔ 
امّی میری سگی امی نہیں ہیں اسی لیے مجھے باسی روٹی کھلاتی ہیں۔
جب بھی دیکھو باسی روٹی، بچا ہوا سالن، سبزی۔
اللہ ایسی امی مجھے ہی کیوں دی آپنے ۔ ابا سے کہوں گی مجھے دادی کے بھعج دیں ، مامو کے بھیجوا دیں ،پھوپھو نسیم کے گھر بھیجوا دیں مگر امی کے پاس نہیں رہوں گی یہ مجھ سے پیار نہیں کرتیں ۔
میں بڑبڑا ہی رہی تھی کہ امی ہاتھ میں لسّی کا گلاس لیے قریب آکر بیٹھ گئیں۔
لو افسر صاحبہ لسی پیو۔
نہیں پینی......! میں نے دھیرے سے کہا۔
اتنا غصہ....کیا فائدہ ہوگا...امی نے اس شفقت سے کہاکہ میں ان سے لپٹ کر پھر رونے لگی.......امی جی آپ کیوں کرتی ہو ایسا۔
مجھے سینے سے چپٹائے امی مرے سر پر ہولے ہولے ہاتھ پھیرنے لگیں ،اور سنجیدگی کے ساتھ بولیں۔
فوزی بیٹی صرف باسی روٹی کھانے سے تم کمزور تھوڑی ہوجاؤگی......اللہ کو برا لگے گا گر ہم اسے ضائع کردیں گے اور ویسے بھی تم تو میری پیاری بیٹی ہونا.....ایسی عادتیں بری ہوتی ہیں بھلے گھر کی بیٹیاں۔ وہ مزید کچھ کہتیں کہ میں فوراََمیں ہی بول پڑی۔
لیکن آپ مجھے ہی کیوں........ میں نے پھر وہی سوال کیاتو اس دفعہ امی کی آنکھوں میں ٹھہراؤ کے ساتھ چہرے پر بھی تجربات کا عمیق رنگ دَر آیا اور بولیں
اس لیے کھلاتی ہوں تاکہ تمہاری عادت رہے....... جانے اپنے گھر جاکر تمہیں کیسا ماحول ملے، کیسی ساس نندیں ملیں، کھانا دیں نہ دیں.....تازہ دیں، باسی دیں...... نا معلوم۔ اسی لیے بٹیا صبر و ضبط تمہاری ذات کا حصہ بنادینا چاہتی ہوں۔ میں بغور انہیں سن رہی تھی۔
میں جانتی ہوں فوزی گر آج میں نے تمہاری پرورش میں آرام و اسباب کی چاندنی بچھا دی تو ہوسکتا ہے ،ایک روز وہی چاندنی تمہاری راہوں میں خار وں کی چادربن جائے گی ۔ خوشحالی اور سکون بہت مشکل سے میسر ہوتے ہیں ،یہ نعمت ہیں اور یہ تمام اسباب انہیں ہی نصیب ہوتے ہیں جو صابر ہوتے ہیں ہر دور سے خندہ جبیں سفر طے کرتے ہیں وہی زندگی کا لطف حاصل کرتے ہیں ۔امی بہت عاقلانہ انداز کے ساتھ مجھے سادھ رہی تھیں اور میں انکی باتوں کو پریوں کی داستان کی مانند سن رہی تھی ۔چند باتوں تک میری رسائی ہوتی تھی اور چند میری فہم سے باہر ہو جاتے تھے۔ 
بٹیا نخرہ اور آرام عورت کے زیور نہیں اس لیے ہمیں کمسنی سے ہی صبر،ایثار اور قربانی کا دامن تھام لینا چاہیے۔
میں امی کی گود میں سر رکھے سن رہی تھی ۔
امی سسرال والے تازہ روٹی نہیں دیتے کیا؟ میں نے معصومیت سے دریافت کیا ۔ 
گرم روٹیوں پر گرنے والی بہوؤں کو بعض ساسیں چمٹے سے مارتی ہیں........! امی نے مسکراکر کہااور میرے گال پر ہلکی سی چپت بھی لگا دی۔
تو میرے جہیز میں چمٹا تو بالکل مت دینا امی........ میں نے منہ بناکر کہا تو امی ہنسنے لگیں 
تمہاری ساس ،وہ تو اپنے جہیز میں لائی ہوں گی نا چمٹا..... اس سے خدا نہ خواسہ نہ ماریں تمہں فوزی میڈم اس لیے چپ چاپ باسی روٹی کھا لینا۔
امی خاموش ہوگئیں اور میں اس سوچ میں کھوگئی کہ شادی کے بعد سب سے پہلے اپنی ساس کاچمٹا چھپا دوں گی...
وقت گزرتا گیا..... لیکن باسی روٹی کا ظلم مجھ پر مسلسل ہوتا ہی رہا۔
اب میں نخرے کم کرنے لگی تھی، امی کی بات بھی مانتی تھی اور انکا کام بھی کرواتی تھی.......بابا، بھائی کا دھیان رکھتی اور ایک لڑکی کے کردار سے شناسائی کرنے لگی تھی ۔ شاید امی نے صحیح کہا تھا، نرم مزاجی اور صبر شخصیت سنوار دیتے ہیں۔ 
. ایک روز میں نے دیکھا امی نے سب کو کھانا کھلاکر روانہ کیا اور خود پانی پی کر روٹیوں میں سے نیچے کی روٹی لینے لگیں..... میں نے دوڑ کر ان کا ہاتھ تھام لیا۔
امی جی آپ یہ اوپر والی تازہ روٹی کھا لیجئے، نیچے والی باسی ہے نا وہ تو میں کھا لوں گی......!
میں نے پیار سے کہا.... تو امی کی آنکھیں بھر آئیں اور امی نے فوراََ ہی مجھے گلے لگا لیا۔ امی جانے کیوں زار و قطار رو رہی تھیں ،میں
انکے سینے سے چمٹی ہوئی انکی تیز ڈھڑکنوں کو بہت دیر تک سنتی رہی۔ ذرا دیر بعد خود پر قابو پایا تو میری پیشانی چوم لیتیں۔
دیکھا باسی روٹی نے تجھے قربانی اور ایثار کے جذبہ سے کس طرح سجا دیا ہے۔ میں جو خوبی جو حسن تجھ میں دیکھنا چاہتی تھی وہ اللہ نے تجھے بخش دیا..... امی بہت دیر تک روتی رہیں اور شکرانے ادا کرتی رہیں۔
انہیں دعاؤں کی چاندنی میں، میں بڑی بھی ہوئی اور پھر پرائی بھی ہو گئی ۔گزرتے وقت کے ساتھ کئی برسوں کا سفر بھی طے کر گئی ،اور وہ شرارتی لڑکی تبدیل ہوتی قدروں کے درمیاں ایک بیٹی کی ماں بن گئی ۔ 
مما..... مما....... کہاں ہیں آپ.....!سارا کی آواز گھر میں گونجنے لگی ۔اسکی متلاشی صداؤں سے میں اپنے حال میں پھر لوٹ آئی۔
مما آپ کچن میں ہیں اب تک؟
سولہ سال کی میری بیٹی سارا کی متلاشی نگاہوں نے مجھے کھوجتے ہوئے کہا۔ وہ جب آواز دینا شروع کرتی ہے تو بمشکل ہی سانس لیتی ہے ۔
ہاں بیٹا......کہو....... کیا ہوا؟
مما میری ٹیوشن کا ٹائم ہورہاہے.....میں جارہی ہوں ۔
تو بیٹا کھانا تو کھا لو!
نہیں مما اسکول میں کھا لیا تھا.........ابھی کوچنگ پر جاکر دیکھوں گی دل کریگا تو اسنیکس لے لوں گی اور پھر رات میں آپ پریشان مت ہونا پلیز پاپا کے ساتھ میں آج باہر ہی کچھ چائینیزکھاکر آؤں گی........ اس نے جلدی جلدی اپنی تفصیلی رپورٹ مجھے سنائی کہ میں جھنجھلا گئی۔
یہ کیا ہے سارا....... تم نے کیا رویہ اختیار کر لیا ہے ۔ بیٹا تم گھر پر تو کھانا کھاتی نہیں صبح اسکول کی کینٹین، پھر کوچنگ اور شام میں کبھی کھایا کبھی نہیں...... یہ کیا حرکت ہے بیٹا.......؟
مما روز رات میں کھانا کھاؤں گی تو موٹی ہوجاؤں گی، موم آپ نہیں جانتیں باہر بہت ٹینشن ہے سیمسٹر ،اسائنمنٹ،پروجکٹ،اور اس کے بعد ایگزیوشن،ڈزائن اسکول ٹور اینڈ کرافٹ کیمپ مما بہت کام ہے سب سیٹ کرنا ہوتا ہے ۔
معلوم ہے بیٹا بہت کام ہے لیکن ان تمام کے درمیاں اپنی زندگی اپنی ذمہ داری کو تو نہیں بھولا جا سکتا نا 
مما پلیز گھر کے باہر بھی ایک دنیا ہے اور بہت فاسٹ ہے اور ہمیں اسی ریس میں فرسٹ آنا ہے ۔مجھے دیر ہو رہی ہے میں جا رہی ہوں اور پلیز آپ شام میں چاہیں تو فروٹ سیلیڈ بنادینا موڈ ہوگا تو کھا لونگی ۔ مما میں جارہی ہوں ، اچھا اللہ حافظ......اور وہ باہر کی طرف دوڑ گئی۔
میں اب بھی وہیں کھڑی تھی...... میں نے غور کیا ، تینوں روٹیاں میری منتظر بغور مجھے گھور رہی تھیں..... گوکہ مجھ سے سوال کر رہی تھیں .......
میری بیٹی ہوا کے پروں پر سوار ہے ..... اور یہ وقت کی ضرورت بھی تو ہے ۔۔.......
تہذیب و قدریں نئی قبائیں اختیار کر رہی ہیں فوزی .......!
اب اپنی ماں کی ترکیب کس طرح عمل میں لاؤگی فوزی ذرا اسکی تو وضاحت کرو....؟.
مینے ذہن کے سانچے سے کہا ،جناب دور بدلا ہے اور ماں بھی .....اب امی والی ترکیب نہیں کچھ نیا کرنا ہوگا ؛؛ کیوں کی وہ تو مشکل بہت ہے 
فراز کا شعر برجستہ معری زبان پر در آیا 
Abhi kuch aur karishmay ghazal ke dekhte hain,
Faraz ab zara lehja badal ke dekhte hain,
میں نے باسی روٹییاں اٹھاکر دروازے کے قریب گشت کر رہی بکری کے روبرو ڈال دیں۔

Comments

Popular posts from this blog

Tazkirah nigaari

Shakeel Badayuni

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam