Afsana : Zidd


ڈاکٹر زیبا زینت


ضد


نہیں میں تمہیں نہیں بھول سکتی۔۔۔کسی قیمت ، کسی صورت نہیں۔۔۔۔۔۔نعمان۔۔۔تم میری زندگی ہو۔۔۔میری زندگی کی پہلی اور آخری تمنا ہو۔۔۔ میں کسی طور پر تمہیں فراموش کروں، یہ میرے بس میں نہیں۔۔۔۔۔۔
بجز اس کے میں مرتو سکتی ہوں ، اپنی زندگی کو ختم کر خاموش ہوسکتی ہوں ،لیکن ہماری محبت مجھ سے بھلائی نہیں جائے گی نعمان۔۔۔۔۔۔ تمہاری محبت میری ذات میں پیوست ہوچکی ہے، تم میری خوشی ہی نہیں میرا سب کچھ ہو ۔۔۔
میں نے محبت جب سے محسوس کی.......... اس لفظ کی عظمت کو جب سے میں نے جانا ، تمہاری ہی پوجا کی ہے نعمان
تمہارا تصور، تمہاری خواہش اور تمہاری ہی آرزو کی ہے۔۔۔......... میری دعاؤں میں تم ہو نعمان میری فکر کے ہرگوشے میں تمہارا ہی مقام ہے۔۔۔ میری سانسوں میں تم بسے ہو اور میرے جسم میں تمہارا عشق پیوست ہے۔۔۔ آج ماہِ نور کے جزبات نعمان کے روبرو اتنی شدت کے ساتھ بیاں ہوئے ،وہ خود کو روک نا پائی اور لفظ بلفظ کہتی چلی گئی 
اب تو اعتبار کرو، اب تو مجھے اپنی محبت کے پھول دیدو۔۔۔خدا کے لیے نعمان۔۔۔ تم مجھ سے میری سانسیں مانگ لو ، میری آنکھوں کی بینائی چھین لو، لیکن یہ معصوم محبت کی دھڑکنیں مجھ سے مت چھینو۔میں اس کے بغیر نہیں جی سکتی۔ مجھے موت کا سامان مہیا کرا دو، لیکن قبر تک میرے محبوب تمہاری محبت کی پاک صدائیں میرے ہمراہ کردو۔۔۔۔۔۔
ماہِ نور کی بڑی بڑی کشادہ آنکھیں گرم آنسوؤں سے تربتر تھیں، اس کا سرخ تپتا چہرہ اس کے جذبات کی نمائندگی کررہا تھا ، آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں اور ہزاروں سوالوں سے بھاری ہوئی نعمان کو بغور مسلسل گھور رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ان آنکھوں میں کرب کی داستان تو تھی ہی اس کے ہمکنار اپنی سچی پاک محبت کے عزم کا لاوا بھی پھوٹ رہا تھا۔
بکھرے بال، بے سودھ احوال۔۔۔ کھویا ذہن اور ڈوبتے دل کے قریب ماہِ نور نعمان سے مخاطب تھی۔ اس کی محبت اپنے سوالوں کے جواب کی طالب تھی۔ وہیں اس کا بلند مقام عشق ابھی بے سدھ و حیران تو تھا لیکن عاجز و کمزور نہیں۔۔۔
نعمان۔۔۔خاموش، گمسم اور اپنے آپ پر قابو رکھے ماہِ نور کے نزدیک کھڑا تھا۔۔۔ 
اپنی محبوبہ کے آنسوؤں بھرے اس معصوم چہرے پر غمزدہ تھا ، شاید اس لیے کہ اب وہ اس دوراہے پر آکر تھم گیا تھا کہ جہاں آکر راستے اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں۔ ذہن میں انتظار کا عنصر مچل مچل کر شور برپا رہا ہے اور دل اپنی مجبوری پر فقط اشک بار ہواہے۔ کہ جہاں اس کے روبرو محبت بھی ہے، محبوب بھی ہے، لیکن وقت و حالات سب سے بڑے دشمن کی صورت اختیار کیے ہیں اور اسے محسوس ہوا کہ انسان اپنے آپ تک سے مجبور ہو ، بے بس، ناچار، وہراساں کسی صورتِ عمل کی دعا میں گرفتارہوتا ہے۔ لیکن شاید اس وقت آسمان بھی اپنے تنگ مزاج کی پیروی کرتا ہے اور ہماری یہ دعائیں اس کے لافانی دائرے ہی میں کہیں کھو جاتی ہیں۔ نہ یہ عمل مکمل حاصل کرتی ہیں اور نہ ہی ناامیدی سے روشناس کراتی ہیں۔ نعمان شاید اسی پستہ حالی اور لاغری سے لڑ رہا تھا ۔۔۔
وہ خاموش تھا کیونکہ وہ ماہِ نور کی طرح چیخ چیخ کر رونہیں سکتا تھا۔ اپنے بے چین ویران دماغ میں اسے کوئی صدا، کوئی امید نظر نہیں آرہی تھی۔ وہ دنیا سے بیگانہ ہوا، اپنی محبوبہ کی بے بسی پر خاموش تھا کیونکہ یہ حقیقت بھی اس پر عیاں تھی کہ جس دم وہ ستم گر کرب کے شعلوں کا چیخ چیخ کر اظہار کردے گا اور اس کا صبر و ضبط اپنے تمام قید و بند توڑ کر اگر عیاں ہوگیا تو ماہِ نور جو اب تک زندہ ہے اپنے محبوب کی حالت دیکھ کر شاید بے چاری کا دل پھٹ جائے گا اور وہ یہ صدمہ کبھی برداشت نہیں کرپائے گی۔۔۔۔۔۔ آخر صنفِ نازک کس حد تک برداشت کرتی، وہ تو پھول سی نرم ہے، اس پر تیزابی بارش کس طرح کردوں۔۔۔نعمان حلق میں گرتے کانٹوں سے خود کو روکتا رہا ۔۔۔دل روتا رہا ، مگر وہ خاموش رہا۔۔۔۔۔۔
ماہِ نور اب بھی سسک رہی تھی، مایوس کن ہچکیوں کو سمیٹ رہی تھی، آواز بھرا چکی تھی اور چاند سا چہرہ اشک بار میلا سا ہوا تھا۔آخرکار خدا جو کرم فرما ہے اس نے نعمان کو طاقت دی۔۔۔نعمان نے بڑی ہمت کے ساتھ ماہِ نو رکو صدا دی۔۔۔
نور۔۔۔نور۔۔۔میری ماہِ نور۔۔۔اس کی آواز میں اس کی بے پناہ محبت و احترام کا آبشار رواں تھا۔
اپنی دھڑکنوں پر قابو رکھتے ہوئے نعمان نے بہت سنجیدگی کے ساتھ ماہِ نور کی طرف گفتگو کے پیمانے پیش کیے۔
میری پیاری نور۔۔۔میری جان میری زندگی۔۔۔ ماہِ نور تم نے یہ کس طرح تسلیم کرلیا کہ مجھے تمہاری محبت پر شک ہے اور ہماری محبت اب خاموش ہورہی ہے، اس کا سفر تھم رہا ہے اور ہم اسے فراموش کردیں۔۔۔
ہماری محبت اس آسمان کی وسعت میں گونجتی وہ پُرکیف صدا ہے کہ جس سے آسمانوں کی رونقیں قائم ہیں۔ آسمان کا حسن، قدرت کی شوخیاں اور زندگی کی جانداری محبت و شفقت کے زیر اثرہی کامیاب ہیں۔۔۔ تو ہماری محبت کیسے دم توڑ سکتی ہے۔۔۔ نور ۔۔۔ نعمان کی آواز میں اعتماد کی بیپناہ تاثیر تھی۔۔۔
میں جانتا ہوں کہ زندگی کی حقیقتوں سے منہ پھیر کر سب فراموش کر ہم نے محبت کی اور اس بات کا بھی میں اعتراف کرتا ہوں کہ اس راہ کی مشکلات کا ہمیں مکمل طور پر اندازہ تھا ۔۔۔
ہماری محبت جدا جدا تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ہم بآسانی ہمسفر بن کر اسے منزل تک رسائی نہیں سکتے۔ یہ ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔۔۔لیکن پھر بھی محبت کی تڑپ نے ہمیں قریب تر کردیا اور ہماری زندگی کی ہر خوشی ایک ہونے کے لیے بے قرار ہوگئی۔ آج ہم ایسے دور کے روبرو ہیں کہ جہاں دو مختلف ذات ،دو گھرانوں کے لوگ جو کبھی نہیں مل سکتے ہم دونوں محبت کی زنجیر میں تو بندھے ہیں، لیکن اس رشتے کو ریشمی ڈور سے باندھنے میں ہم قاصر ہیں۔
ماہِ نور بدحواس ہوگئی، نعمان کے ہر ایک لفظ سے آشنا تھی اور بغور اسے سن رہی تھی، ہولے سے کہنے لگی۔۔۔
توکیا ہماری محبت کوئی جرم ہے۔۔۔ مایوس صدا نے ماہِ نور کے لب کشا کیے۔۔۔
نہیں جرم نہیں حماقت ہے۔۔۔ لیکن محبت تو محبت ہے، اس پر کسی کا کوئی بس نہیں۔۔۔
تو کیا ہم جدا ہوجائیں گے۔۔۔اگر ایسا خواب میں بھی ہوا تو شاید اس صبح کی شفق میری نگاہیں نہیں دیکھیں گی، میں خواب میں ہی اپنی دھڑکنوں سے رشتہ توڑ لوں گی۔
ماہِ نور ۔۔۔یہ کیا بیوقوفی کی باتیں کررہی ہو۔۔۔ ہماری محبت بھی جاویداں ہے، یوں ہارنے کے لیے انسان اپنی دلجوئی نہیں کرتا ، ایسی بے سبب باتیں مت کرو، حوصلہ رکھو۔
ہم اور ہماری زندگی ایک ہوکر رہے گی۔۔۔ اب چاہے جو کچھ ہو، میں کسی خوف و خطر سے نہیں گھبراتا،۔۔۔ہماری محبت اتنی کمزور نہیں کہ وہ خود اپنے آپ کو لاغر کردے۔ گر محبت نے وفا سیکھی ہے تو وہ عداوت کی ادا بھی بخوبی جانتی ہے اور اب ہر مرحلے سے گذرنے کی ضد بھی مجھ پر حاوی ہے۔
نعمان کی آواز میں بجلی کی سی روِش در آئی تھی اور یہ اس کی محبت کا ہی وقار تھا کہ جس نے اسے دنیا سے لوہا لینے پر آمادہ کردیا تھا۔ ماہ نور سے کہنے لگا....
ماہِ نور ہم اس طرح ہارکر نہیں بیٹھ سکتے۔۔۔تم میری محبت ہو اور محبت خدا کے نزدیک ایک پاک اور مقدس عمل ہے۔ ایک نایاب موتی ہے جس کی آب کی وہ خود رحفاظت کرتا ہے۔ خدا خود محبت کی ستائش و حفاظت کرتا ہے۔
ماہِ نور نعمان کو بغور دیکھ رہی تھی اور اس کے سمندر نما آنسوؤں میں امید کی روشنی بھی در آئی تھی۔۔۔لیکن دور ہی کہیں فکر و اندیشہ کا پہلو بھی کروٹیں لینے لگا تھا۔۔۔نعمان کا چہرہ بے اختیار فتح پر مضبوط و منور نظر آنے لگا اور اس نے ماہِ نور کے دونوں ہاتھوں کو اپنی مضبوط ہتھیلیوں میں کس کر تھام لیا اور اس کی آنکھوں کی گہرائیوں میں اپنی اقتدارانہ خاموشی کے پیکر بکھیر دیئے۔ ماہِ نور ہرعمل و ترکیب سے بے گانی نعمانی کی آنکھیں پڑھنے لگی اور اس کا دل باری تعالیٰ کے دربار میں دعا ئیں مانگنے لگا 
تین روز بعد محلے میں ایک خوفناک شور اُٹھا۔۔۔لوگ آپس میں فکر مند ہوئے اندازوں میں مصروف تھے ۔
ماہِ نور کا چھوٹا بھائی دوڑتا ہوا گھر میں داخل ہوا ۔ ماہِ نور برآمدے میں ہی کھڑی پودوں کو پانی دے رہی تھی۔ داخل ہوتے ہی زور سے چیخا.........
امی۔۔۔امی۔۔۔ نعمام بھائی نے ایسڈ پی لیا۔۔۔۔۔۔امی۔۔۔نعمان بھائی نے۔۔۔ایسڈ پی لیا، انہیں اسپتال لے کر گئے ہیں۔۔۔۔۔۔تائی امی رو رہی ہیں ، شاید وہ بھی وہیں جارہی ہیں۔
زینوں سے اترتی نشاط بیگم کے ہاتھوں سے مسالہ کی طشتری گر گئی اور وہ وہیں بیٹھ گئیں، ان کا سر چکرانے لگا ۔۔۔نعمان ۔۔۔ہائے۔۔۔نعمان۔۔۔ چیخ حلق میں پھنس کر رہ گئی۔
اِدھر برآمدے میں ماہِ نور بیہوش ہوکر گر پڑی۔۔۔ماحول پر خاموشی کی چادر پھیل گئی....................
نعمان اور ماہِ نور بچپن کے دوست تھے ۔ دونوں کا گھر ایک ہی محلے میں واقع تھا اور قریب قریب ہی بناہوا تھا۔ نعمان کا خاندان اعلیٰ اقتدارانہ حیثیت کا بلند مرتبہ رئیس اونچی ذات خاندان تھا۔ وہیں ماہِ نور ایک درمیانی ماحول کے گھر کی بیٹی تھی۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرچکی تھی لیکن ذات کی نہر اس پہ بھی حاوی تھی اور اب گھروالوں کو اس کی شادی کی فکر ہونے لگی لگی ہے، وہیں اندر ہی اندر سب جانتے ہیں کہ نعمان اور ماہِ نور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، لیکن جداگانہ ذات اور علاحدہ خاندانوں کی دیوار نے انہیں جدا کر رکھا ہے۔ دونوں گھروں کا اتفاق بھی اسی لیے ختم ہوچکا ہے اور دونوں ہی سمت ایک دوسرے کے لیے بیگانگی کے تاثرات ابھرنے لگے ۔ ملنا جلنا، سلام دعاتک نہیں ہوتی، لیکن ان سب کے درمیان دومعصوم دلوں کی محبت قائم ہے اور اسی عشق کی ضد میں آج نعمان نے اپنی زندگی داؤں پر لگا دی۔
چار روز گذرچکے ہیں۔۔۔نعمان کی نازک حالت اب خطرے سے باہر ہے، لیکن ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اس کے گلے کی نس ڈیمیج ہوچکی ہے ، دس دن کے اندر ایک شدید خطرناک آپریشن کرنا ہوگا، نہیں تو نعمان کی جان بھی جاسکتی ہے۔ اس کا اندرونی جسم بری طرح جل چکا ہے۔۔۔ اور اس کی زندگی ایک روئی کے گولے کی مانند نازک ہوچکی ہے۔۔۔ اب وہ کس طرح اور کتنا عرصہ جی پائے گا اس کا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔۔۔
وہیں دوسری جانب چار روز سے ماہِ نور بھی شدید بخار کے شکنجے میں ہے، اس کا جسم شعلوں کی طرح دہک رہا ہے۔ ماں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے اور ماہِ نور ہے کہ ہوش میں جب بھی آتی ہے نعمان کا نام لیتی ہے ، اس کی صدائیں مظلوم ودردناک آہوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور وہ ذرا دیر بعد پھر بیہوش ہوکر آنکھیں بند کرلیتی ہے۔۔۔
تین ماہ کی قید اسپتال سے کاٹ کر نعمان اپنے گھر بڑی حویلی میں لوٹ آیا ہے ، گھر میں سناٹا چھایا ہے، اپنے ۲۶سال کے نوجوان بیٹے کو اس حالت میں دیکھ کر ماں باپ خون کے آنسو رو رہے ہیں، چہرہ پر غم نے قبضہ کرلیا ہے،ہزاروں اندیشے ،خیالات کا درد بھرا سایہ سوچ پہ سوار رہتا ہے۔
شام کے کوئی سات بجے تھے۔۔۔گھر میں اسی ویرانی کا سایہ تھا۔۔۔نعمان نیچے کے ہی کمرے میں لیٹا تھا ۔ پینا ،دوا سب ڈریپ سے کیا جارہاہے۔ ایک نرس اس کی خدمت میں لگی ہوئی ہے ۔
ماہِ نور کی ماں بوجھل قدموں سے بڑی حویلی میں داخل ہوتی ہیں، ان کی آنکھیں جھکی ہوئی اور رنج سے پرآشوب چہرہ احوالِ دل کی وضاحت صاف طور پر کررہاہے۔
نعمان۔۔۔میرے بچے نعمان۔۔۔ 
چھالوں بھری زخمی آواز نعمان کے ماں باپ کو سنائی دیتی ہے، وہ مڑکر دیکھتے ہیں ، نشاط بیگم مایوس کھڑی ہیں۔نعمان نیم خماری میں ہے لیکن ہاتھ پیر میں حرکت ہوتی ہے، اس کی ماں دوڑ کر قریب جاکر اطمینان کرتی ہے کہ کوئی تکلیف تو نہیں ۔۔۔
نعمان کی حالت دیکھتے ہی نشاط بیگم کا کلیجہ جیسے پھٹ جاتا ہے، دہلیز پر ہی گر جاتی ہیں اور دوپٹہ منہ میں ٹھونس ٹھونس کر رونے لگتی ہیں۔ایک ہاتھ کبھی سر پر مارتی ہیں تو کبھی دہلیج پر۔ نعمان کے والد صاحب بھاری قدموں سے باہر چلے جاتے ہیں اور نعمان کی امی کو صدا دیتے ہیں ۔۔۔وہ بھی باہر چلی جاتی ہیں۔
کچھ وقت بعد وہ اپھرندر داخل ہوتی ہیں ، نشاط بیگم اب بھی وہیں دہلیج پہ سر جھکائے اشکبار بیٹھی بغور نعمان کو دیکھ رہی ہیں۔
نعمان کی امی نے یکبارگی پھر دوڑ کر نعمان کو دیکھ۔۔۔آج کتنے دنوں بعد ان کے بیٹے نے پوری طرح آنکھیں کھولی تھیں۔
نعمان کی امی نے نشاط بیگم سے عاجزانہ لہجے میں کہا۔۔۔بھابھی جان۔۔۔ ماہِ نور کیسی ہے۔۔۔سنا ہے بیمار ہے۔۔۔ مظلوم دونوں ماؤں کے آنسو پھر بہہ نکلے۔ 
ماہِ نور تو اپنی آواز جیسے کھو چکی ہے ۔ نہ جانے کسی سوتم قسمت لائی ہے، کچھ معلوم نہیں نعمان کی فکر اسے کھا گئی، آپا ۔۔۔میری بچی اندر ہی اندر ختم ہوئی جارہی ہے۔۔۔ چاند سا چہرہ سیاہ پڑگیا ہے اور آنکھیں کھوئی کھوئی سی پاگل کی طرح ہوگئی ہے۔ نشاط بیگم بہت مشکل سے کہہ پائیں
نعمان کی ماں نے مڑکر دیکھا تو نعمان کی آنکھوں سے پانی بہ نکلا تھا۔ قریب آکر بیٹے کے سینے سے چپک گئیں اور بھرائی ہوئی آواز میں بولیں۔۔۔میرے چاند تو بس جلدی سے اچھا ہوجا جو کہے گا جو چاہے گا وہی ہوگا ، میں خود تجھے ماہِ نور سے ملاؤں گی ، میرے لال تو جلدی سے بھلا ہوجا۔۔۔
پورے تین مہینوں کے بعد نعمان نے ہاتھ اُٹھاکر اپنی ماں کے آنسو پوچھے اور دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر معافی مانگی۔ شاید اسے اپنی غلطی کا احساس تھا۔۔۔اسے احساس ہوا تھا کہ اپنی بیخوف محبت کی خاطر اس نے ماں باپ کو کتنی تکلیف دی ہے۔۔۔
ماہِ نور کا بڑی حویلی میں آنا جانا شروع ہوگیا، وہ گھنٹوں نعمان کے قریب بیٹھی دیوانوں کی طرح باتیں کرتی رہتی، اس کی خدمت کرتی، اسے سمجھاتی، دونوں گھرانے ان کی محبت کے آگے ہار گئے اور ان کے اس پاک رشتے کے لیے تیار ہوگئے۔
نعمان کی حالت میں بہت تیزی سے اصلاح ہونے لگی، وہ بہ ظاہر ٹھیک ہونے لگا ، حالانکہ کھانے پینے میں اب بھی پہلے جیسی بات نہیں تھی، پھر بھی چہرے پر رونق نظر آنے لگی تھی۔ یہ اس کی محبت کی خوشی اور گھر والوں کی ستائش کا صلہ تھا۔
چھ مہینے گذر چکے تھے کہ ایک روز نعمان کے پیٹ میں بے ساختہ درد اٹھا، اس کے گھر والے اسے لے کر اسپتال پہنچے ، ماہِ نور بھی اپنے بھائی کے ساتھ وہاں پہنچی ، ڈاکٹر نے چیک اپ کیا اور نعمان کے والد کو اپنے کیبن میں بلایا، ، لیکن ماہِ نور بھی التجا کرتی ہوئی ان کے ساتھ اندر چلی گئی۔ 
سب اسپتال سے گھر آگئے ، اب تک نعمان کی حالت میں کافی سدھار تھا ، وہ بہت سکون محسوس کررہا تھا، کہ ماہِ نور نے کمرے میں دستک دی۔
آؤ نور، اندر آجاؤ، کیا تمہیں بھی دستک کی ضرورت ہے۔۔۔ نعمان نے دھیمے سے کہا۔۔۔تو ماہِ نور مسکراتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔۔۔
اوہ ہو۔۔۔ واہ صاحب آپ کو تو گھومنے کی عادت ہوگئی ہے، کس قدر حیران کردیا سب کو ، اگر باہر جانا تھا تو ابو کو ویسے ہی کہہ دیتے ، اس کی آواز میں شوخی کا دخل تھا۔
ارے ماہِ نور۔۔۔ یقین کرو، یار سچ میں تیزدرد ہوا تھا۔۔۔ اور ویسے بھی آج تم آئی نہیں تھی نا، اس لیے بھی تمہیں بلانے کا بہانہ کیا تھا۔۔۔ نعمان نے بھی اسی کے انداز کی ڈور تھام لی۔۔۔ اور دونوں مسکرادیئے۔
ماہِ نور اب سنجیدہ رہنے لگی تھی اور اس نے کتنی مرتبہ نعمان سے شادی کے لیے زور دے کر کہا تھا ۔
نعمان اب تم صحتمند ہوگئے ہو شادی کا ارادہ ہے یا نہیں۔۔۔یا پھر اس موئی نرس کو دیکھنے میں ہی طبیعت خوش ہوگئی ہے....... اس کی باتیں سن کر نعمان مسکرا دیتا۔
آخرکار دو ماہ بعد برجستہ ہی ابو امی اور ماہِ نورو نعمان کے درمیان شادی کی گفتگوہوئی اور ماہِ نور راضی ہوئی۔۔۔نعمان خوش تو تھا لیکن اس جلد بازی سے خاصا حیران تھا۔پندرہ روز کے اندر ایک خوبصورت محفل میں نعمان اور ماہِ نور کا نکاح ہوگیا، ماہِ نور اب نعمان کی زندگی میں مکمل طور پر آچکی تھی۔ان کی دعاؤں نے قبولیت کی خوشبو کو حاصل کیا تھا، دونوں کی پرکشش مسکراہٹیں محفل کی جان بنی ہوئی تھیں۔
دونوں کی اس خوبصورت جوڑی کی لوگ نظر اتار رہے تھے، ماہِ نور کی آنکھوں میں شرم و حیا کے پیمانے چھلک رہے تھے اور نعمان کے چہرے پر اپنی محبت کی کامیابی پر سرخ رونقوں کی آرائش تھی۔
دن گذرتے رہے، نئے جوڑے کی خوشیوں کی مہک سے گھر معطر تھا۔۔۔ماہِ نور ایک قابل پُرصلاحیت اور انکساری کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہی تھی، اس کی زندگی نعمان کی خدمت و عافیت کے نام ہوچکی تھی، وہ ہروقت اس کے چاروں طرف گھومتی رہتی ، اس کا خیال رکھتی۔۔۔
وقت کے ساتھ محبت کے رنگ نکھرنے لگے، ماہِ نور نے ایک بیٹی کو جنم دیا۔۔۔گھر میں خوشیوں کے گیت گائے جارہے تھے، نعمان باپ بننے کی خوشی میں ناچ رہا تھا۔۔۔ اس کی مسرتوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔۔۔
ابو میں پاپا بن گیا۔۔۔، امی آپ دادی بن گئیں ۔ اب دیکھنا کوئی میری بیٹی کو دیکھ تو لے۔۔۔ وہ تو شہزادیوں کی طرح رہے گی ۔۔۔ماہِ نور۔۔۔ ہماری بیٹی۔۔۔ہماری بیٹی۔۔۔ کہتے کہتے نعمان کے پیٹ میں شدید درد اُٹھا۔بیساختہ زمین پر گر پڑا۔۔۔
ماہِ نور چیخ اٹھی۔۔۔نعمان۔۔۔ کوئی دیکھو نعمان کو۔۔۔ ابو۔۔۔نعمان۔۔۔
دو روز تک نعمان اسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان جنگ لڑتا رہا اور ماہِ نور اپنی چار دن کی معصوم بچی کو گود میں لیے بلکھ بلکھ کر دعائیں کرتی رہی۔۔۔آخرکار ۔۔۔تیسرے دن دوپہر کے وقت نعمان کی سانسیں تھم گئیں۔۔۔نعمان دنیا سے چلا گیا۔۔۔
گیارہ ماہ کی نئی نویلی دلہن بیوہ کی لباس میں بے سدھ پڑی تھی اور ہفتے بھر کی ننھی بچی یتیم ہوچکی تھی۔
ماں باپ گھر والے، اس ستم پر سوکھی آنکھوں سے دونوں کو نہار رہے تھے۔۔۔کہ کسی نے دھیمے سے کہا۔۔۔
منحوس ہے یہ لڑکی۔۔۔
جب سے نعمان کی زندگی میں داخل ہوئی ہے اس کی جان کے پیچھے پڑی تھی۔۔۔ آخرکار کھا ہی گئی۔
برائی کے چہرے نہیں ہوا کرتے، وہ کسی بھی صورت، کسی بھی زبان سے باہر آجاتی ہے۔ صداؤں میں اضافہ ہونے لگا باتوں کو طول ملنے لگا۔زہر آلودہ تعنے گھر میں پھیلنے لگے 
اپنے ضبط کا دامن چھوڑ نعمان کے ابو اپنی پوری طاقت و قوت سے چیخ کر بولے۔۔۔ خاموش ہوجاؤ۔۔۔ کوئی میری بہو کو کچھ نہیں کہے گا۔۔۔اگر کچھ کہا تو زبان حلق سے کھینچ لوں گا۔۔۔
چاروں طرف سناٹا پھیل گیا۔ ابو نے ماہِ نور کو گلے سے لگا لیا۔۔۔ اور اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا۔۔۔
یہ وہی فرشتہ ہے کہ جس نے میرے بیٹے کی بچی ہوئی زندگی میں رونقوں کے رنگ بھرے تھے، ورنہ ڈاکٹر نے سال بھر پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ نعمان زیادہ دن زندہ نہیں رہے گا۔ا س کا جسم اندرونی طور پر ختم ہوچکا ہے اور وہ کسی بھی وقت موت کی گود میں سما سکتا ہے۔ اسے جو خوشی آپ دے سکتے ہیں دے دیجئے۔ ورنہ وہ آس ہی ااس میں مایوسی میں ہی ختم ہوجائے گا۔ ابو کی آواز بھرا گئی،
نعمان کی ننھی بچی ان کی گود میں رو نے لگی تھی۔۔۔ خود کو سمبھالتے پھر کہنے لگے
اس وقت ماہِ نور پر یہ تمام حقیقت عیاں تھی اور اس نے اپنی زندگی ، خوشی، جوانی، آرزو، اور رونقوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے نعمان کی محبت کو چنا، اسے ہر خوشی دینے کا عزم کر وہ مرے قدموں میں گر گئی۔ اس نے رو رو کر نعمان کی قربت ، اس کی خوشی ہر قیمت پر مجھ سے مانگی اور اپنی ساری عمر اس کے نام صرف کردینے کی قسم کھائی ۔ یہ وہ عورت ہے کہ جو مکمل سچائی سے روشناس ہوکر اس غار میں خود جا گری کہ جہاں فقط درد، پیاس، آشوب اور تنہائی کے کچھ نہیں۔ یہ پیار اور ایسار کی مجسم صورت ہے یہ قربانی اور وفا کی مثال ہے اسے منحوس کہنے والوں اپنے گریباں میں دیکھو...... چلے جاؤ.... ہمیں جھوٹے دلاسوں کی کوئی ضرورت نہیں............ چلے جاؤ ............. ابو کی آواز بھرہ گئی
ابو نے بچی کو ماہِ نور کی گود میں دیا۔ بچی ماں کی خوشبو پہچان گئی، ماہِ نور نعمان کی اس پرچھائی کو سینے سے چپٹا کر چیخ اٹھی
نعمان مجھے معاف کردوخدا کے لئے مجھے معاف کر دو..............
لیکن میں کیا کرتی نعمان میں محبت کے ہاتھوں مجبور تھی۔۔۔ ہماری ضد نے آخر ہمیں جدا کر دیا ...........نعمان کی یادنے ماہ نور کو دیوانہ کر اور وہ سبکتی ہوئی نیم بیہوشی میں بڑبڑانے لگی..........
ہماری محبت ہمیشہ زندہ رہے گی۔ نعمان۔۔۔ ہماری محبت۔۔۔زندہ رہے گی اور آنکھیں بند کر خیابان میں کھو گئی۔ 

Comments

Popular posts from this blog

Tazkirah nigaari

Shakeel Badayuni

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam