فون کال Afsana Phone call
فون کال
موسم نے اپنے مزا ج میں نہ تلخی کو شامل کیا تھا نہ سرد ہواؤں سے ہی ناطہ جوڑا تھا ۔ ایک سہانہ گلابی موسم شہر کو اپنے آغوش میں لیے تھا ۔ کہنے کو اس ماہ میں سردی کی آمد کا انتظار ہوتا ہے لیکن شاید موسم بھی انسانی جذبوں کی طرح اپنے مطابق تبدیل ہونے لگے ہیں جب جی چاہا محبت کی گرمی کا احساس کرادیا اور جب دل کیا سرد حساس زندگی سے دامن ترکرلیا۔ موسم کی یہ دلفریبی اب اکھرنے لگی تھی۔۔۔بس یہی ماحول، یہی زندگی۔۔۔
شام کے ساڑھے پانچ بجے تھے اور اسماء اسٹڈی میں بیٹھی کتابیں نہار رہی تھی یا یوں کہیں کہ کسی کتاب سے کسی موضوع سے دلجوئی کرنے کے فراق میں تھی۔
فون کی گھنٹی بجی تو سناٹے کی گرہ کھل گئی۔فون سامنے کی ٹیبل پر رکھا چیخ رہا تھا اور اسما اُکتائی ہوئی اس پر غصہ کی نظر ڈال رہی تھی، شاید اس لیے کہ پورے سوا گھنٹے کی محنت کے بعد اب جاکر یہ ڈِسائڈ کیا تھا کہ کون سی کتاب پڑھوں۔
کرسی سے اُٹھی تو پین ٹیبل پر سے گر گیا۔ سائڈ کے کچھ کاغذ جو بے ترتیب رکھے تھے نیچے پھسل گئے۔ کسی طرح جلدی سے فون اُٹھایا اور بغیر نمبر دیکھے ہی سوال کرڈالا ، جی کون؟۔۔۔۔۔۔کون صاحب فرما رہے ہیں ۔۔۔
ویسے فون کی ایک روایت ہو چلی ہے ۔ ہیلو۔۔۔ہیلو کہے بغیر سوال کردیں تو فون کرنے والے کو شدید گھبراہت سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
دوسری طرف سے آواز آئی۔جی۔۔۔جی۔۔۔ میں پونا سے بات کر رہا ہوں۔۔۔کیا میں ڈاکٹر اسماء سے بات کرسکتا ہوں۔۔۔اس نے بڑے عاجزانہ لہجے میں اپنی بات کہی۔۔۔
آواز تو دمدار تھی ہی۔۔۔ساتھ ہی انداز بھی کافی اچھا تھا۔
اسما کچھ سمجھی اور روایتاً انکساری سے جواب دیا۔۔۔جی فرمائیں۔۔۔ اسماء ہی عرض کر رہی ہوں۔۔۔
ادھر ایک سکون کی سانس کا موقع ہوا۔ اور دوپل ٹھہر کر پھر اُدھر سے چپ کی لڑیاں جاری تھی۔ پھر کہا........ جی میں ڈاکٹر اسماء ہی عرض کر رہی ہوں۔ آپ کون صاحب۔۔۔
سلام علیکم۔۔۔ میں پونا سے ماہر عرض کررہا ہوں۔۔۔ وعلیکم السلام۔۔۔
جی فرمائیں ، اسماء نے بڑے اطمینان سے کہا۔۔۔۔۔۔۔کچھ لمحہ خاموشی درمیان میں گفتگو رہی۔۔۔
جی میں ویب ڈزائنر ہوں اور زبان کی اور زبان کی خدمت میں مختلف ویب پر کام کرتا ہوں، اس نے پرمسرت لہجے میں کہتے ہوئے اپنی ذہانت کی اطلاع دی۔۔۔
ویری گڈ۔۔۔ تو میں آپ کی کیا مدد کرسکتی ہوں۔۔۔اسمانے سوالیہ انداز میں اسے دریافت کیا۔۔۔
جی ۔۔۔جی۔۔۔ مدد نہیں ۔۔۔دراصل کچھ روز قبل ہی ایک میگزین میں نے آپ کا ایک مقالہ پڑھا ۔۔۔مجھ وہ بہت پسند آیا ۔۔۔یقین کیجئے فون تو میں اسی دن کردیتا ۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔وہ خوشباشی کے ہر ہنر سے آشنا تھا ۔ آواز کی کھنک، بات کرنے میں اس کی دلچسپی کو مکمل طور پر واضح کررہی تھی اور لفظ بہ لفظ حقیقت ہے اس کی بھی وضاحت ہورہی تھی۔
اسماء نے بیچ میں ہی اسے ٹوکتے ہوئے پوچھا۔۔۔لیکن۔۔۔لیکن کیا۔۔۔
اس کی آواز کچھ روکھی ہوکر باہر آئی۔۔۔جی وہ فون نمبر مس ہوگیا تھا ، دو دن تلاش کرتا رہا ، اس کے بعد پھر سے میگزین تلاش کی ، مقالہ کھوجتا رہا ، تب کہیں جاکر آپ کا فون نمبر میسر ہوا۔
اس کی صدائیں اپنی گذری ہوئی پریشانی کا حال بیان کرنے لگیں اور اسماء پرسکون اس کی بات سنتی رہی۔
معاف کیجئے، لیکن یہ تو بتائیں کہ وہ کون سا آرٹکل تھا جس نے اس قدر مصیبتوں سے آپ کو دوچار کردیا ، اسماء نے سادگی سے پوچھا۔
وہ صاحب جو اب تک ایک اجنبیت اور دائرہ بندی کے انداز کی نمائندگی کررہے تھے، اسماء کے اس سوال پر ذرا فری ہوتے ہوئے آرام سے مخاطب ہوئے۔
جی وہ مقالہ جو آپ نے رومانی شاعر کی زندگی اور اندازِ بیان پر تحریر کیا ہے، بلاشبہ بہت ہی خوبصورت اور دلکش مقالہ ہے۔
شکریہ ۔۔۔نوازش۔۔۔ اسماء نے جواب دیا۔
شکریہ تو ہم لوگ ادا کریں کہ اتنے خوبصورت مقالے کو آپ نے اپنی محنت اور محبت سے تحریر کیا ، اس پر اتنی ریسرچ کی اور قارئین کی دلچسپی کا سامان مہیہ کرایا۔
اس کی آواز کی کھنک اور بڑھ گئی اور لفظ زباں سے ناز و ادا کے ساتھ حال بیان کرنے لگے
نہیں۔۔۔ ادب سے قربت اور اس سے میں محنت کا جذبہ تو ہر زبان سے محبت کرنے والے کا فرض ہے۔۔۔اور ویسے بھی میں نے تو فقط ایک کوشش کی ہے۔۔۔ اگر وہ قارئین کی پسند کا ساماں بنی ہے تو یہ خوش نصیبی ہے۔۔۔اسماء نے مخلصانہ انداز میں اپنی پیروی کی۔
جی۔۔۔بالکل بجا فرمایا۔۔۔ اس نے بھی جواباً ہاں میں دلیل دی۔
اسماء خیرباد کہنا ہی چاہتی تھی کہ اس نے پھر بات کے سلسلے کو شمع دکھائی اور سوالستان پھر سے روشن ہوگیا۔
اور فرمائیں آپ کاا دبی بیسٹ فیلڈ کیا ہے۔۔۔یہ سوال نیا نہیں تھا ، مگر جس انداز میں پوچھا گیا اس میں نرالہ پن یقیناًواقع تھا ۔
جی۔۔۔ اسماء نے انجان ہوکر پھر سے پوچھنے کی کوشش کی۔۔۔
اُدھر سے ہنسنے کی آواز سنائی دی اور ذرا سنبھل کر پھر سے سوال داغا گیا ،
معاف کیجئے۔۔۔ میرا قطعی یہ مقصد نہیں تھا کہ آپ کو پس و پیش میں مبتلا کردوں۔
ارے نہیں نہیں۔۔۔ڈونٹ وری اباؤٹ دِس۔۔۔ اسماء نے کہا۔ دراصل مجھے یکبارگی معلوم نہیں ہوا کہ آپ کیا پوچھ رہے ہیں، لیکن کس طرح پوچھ رہے ہیں ، اس پر ذرا حیران ہوں۔
خیر ۔۔۔اسماء نے ذرا دیر خاموش رہ کر پھر سے گفتگو کے سلسلے کو آگے بڑھایا۔۔۔مجھے اردو زبان سے محبت ہے۔اس کے مطالعہ سے مجھے سکون ملتا ہے۔ میں خاص طور پر جدید اردو ادب کی کارگذار ادیبوں سے متاثر ہوں اس لیے نئے ڈرامے، خاکے، مقالے اور جدید نظم و نثر سے رشتہ بنائے ہوئے ہوں ۔ حالانکہ مومنؔ ، میرؔ ، غالبؔ سے بھی کافی دلچسپی ہے اور سرسید، اقبالؔ ، فرازؔ ، فیضؔ کو پڑھ کر تو ایک الگ مزا ساآتا ہے ، اس کا مقابلہ کہیں نہیں۔
اسماء اپنی بات بغیر کسی کومے و فُل اسٹاپ کے کہہ رہی تھی اور اُدھر سے ہاں۔۔۔جی۔۔۔بالکل۔۔۔بلا شبہ کے سوا کچھ جواب نہیں تھا۔ ۔۔۔ہاں دلچسپی کا مظاہرہ تو تھا لیکن ادب اپنی موجودگی کا احساس کرارہا تھا بصداحترام وہ گوش گذار تھا۔
اسماء نے محسوس کیا کہ اس کی جاننے کی طلب ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور وہ اور طویل کے لیے تیار ہے، لیکن اسماء اس گفتگو کو اب ترک کرنا چاہتی تھی ۔ اسماء کے خاموش ہوتے ہی وہ پھر سے بول پڑا جیسے فون کو سانس نہ لینے دے گا۔
آپ کو سن کر مجھ پر ایک الگ ہی کیفیت طاری ہورہی ہے۔یقین کیجئے۔۔۔ میں بہت دل سے کہہ رہا ہوں۔۔۔ آپ سے بات کرکے مجھے بہت خوشی و شادمانی کا احساس ہورہاہے۔
شکریہ اب اجازت دیجیئے......... اسما نے کہا
محترمہ آپ صرف لکھتی ہی نہیں بولتی بھی بہت اچھا ہیں۔۔۔آپ کی آواز پرکشش ہے، وہیں انداز بھی مخلصانہ اور شائستہ ہے۔۔۔آپ ہر بات کو آسانی سے باشعور طور پر کہہ دیتی ہیں اور سننے والے اس سے اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔۔۔میں تو کہتا ہوں آواز سے محبت ہوجائے گی۔
وہ بغیر رُکے بس کہے ہی جارہا تھا۔۔۔ نہ جانے کیوں اب اسماء کو اپنی تعریف سے الجھن ہونے لگی، اس کا دل ہوا کہ وہ شخص خاموش ہوجائے اور یہ خدا حافظ کہہ دے۔ یہ بھی ظاہر سی بات تھی کہ کسی اجنبی سے اتنی بات وہ مشکل ہی سے کرتی تھی ، اس پر یہ گفتگو کا سلسلہ ایک الگ ہی راہ اختیار کرنے لگا تھا۔
وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی کہ فون کی دوسری جانب سے پھر ایک سوال اُٹھ کھڑا ہوا اور اس کی شروعات نے اسماء کو خاصی حیرت میں ڈال دیا۔
اسماء۔۔۔آپ سن رہی ہیں نا۔۔۔
اس نے چونک کر پھرغور کیا۔۔۔ یہ کیا ماجرہ ہے ، پہلے ڈاکٹر صاحبہ ، پھر جی۔۔۔جی۔۔۔ اور اب ڈائریکٹ اسماء۔۔۔ اسے خاصہ ناگوار گذرا۔۔۔ اور اسماء نے معذرت خواہانہ انداز میں بات کا رُخ موڑنے کی کوشش کی۔
ابھی میں ذرا مصرو ف ہوں اللہ حافظ...................اور اسمانے فون کاٹ دیا
لیکن پھر فون کی صدا گونج اٹھی اسما نے فون اٹھایا وہی آواز سنائی دی..............
جی فرمائیں۔۔۔ میں غور کررہی ہوں کہ آپ بہت جلد کسی سے بے تکلف ہوجاتے ہیں ۔۔۔اچھا مجھے اب اجازت دیں ، میں ذرا مصروف ہوں۔۔۔پھر بات ہوگی۔۔۔انشاء اللہ، اس نے روکھی آواز میں اپنی بات کہی۔
دوسری جانب فون سے آواز آئی۔۔۔اوہ مجھے لگتا ہے اسماء آپ ناراض ہوگئیں ۔۔۔سوری۔۔۔ میں نے آپ کا نام لے کر پکارا۔۔۔ مگر معاف کیجئے اتنا حق تو ایک پسند کرنے والے کا بنتا ہے ۔۔۔آخر ہم آپ کے فین ہیں۔۔۔اس کی آواز میں شوخی اور بے تکلفی کے تاثرات امڈ آئے۔
فین ہونے میں فرق ہے۔۔۔اسماء نے جواب دیا۔
کیسا فرق۔۔۔ اس کی آواز ذرا اور بناوٹی ہونے لگی۔ میں آپ کا فین ہون ۔۔۔آپ کی تحریر سے محبت کرتا ہوں ، آپ کی تصویر کو پسند کرتا ہوں اور اب آپ کی آواز پر فدا ہوں ، اس سے عشق ہوگیا ہے تو بتائیں میں کیا کروں۔ اب فون بند کرنے کو دل نہیں کر رہا۔۔۔بس بات کرتی رہیں ، اب اس کی آواز بہکنے لگی اور انداز میں بھی تبدیلی ظاہر ہورہی تھی۔
اسماء کو یہ بات نہایت بری لگی اور اسے جھنجھلاہٹ ہونے لگی۔ ایک غیر آدمی ایسی باتوں سے آخر کیا ثابت کرنا چاہتا ہے، وہ اسی سوال پر اٹک گئی۔اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے لوگ اکثر نسائی ذہن کو اپنی جانب متوجہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر و بیشتر وہ اس میں کامیاب بھی ہوتے ہیں۔۔۔۔اسماء نے خود پر قابو رکھتے ہوئے پھر اس شخص سے مخاطب ہوئی۔
آپ کی بات صحیح ہے۔۔۔بجا فرمارہے ہیں۔۔۔ایک ادبی پہلو سے گر خود کو میرا فین کہتے ہیں تو اس میں کوئی غلط بات نہیں ہے۔ فن کی تعریف کرنا، اسے سراہنا اچھی بات ہے۔ اب میں فون رکھتی ہوں۔ اللہ حافظ!
اور اسماء نے فون بند کردیا، کیونکہ اب وہ حقیقت میں اس گفتگو سے تھک چکی تھی۔
دس منٹ بعد پھر فون کی صدا سنائی دی۔
ہیلو۔۔۔اسماء نے کہا۔
جی فون شاید کٹ گیا تھا۔۔۔ اسی لیے میں نے پھر سے نمبر ملا لیا۔ آپ سے بات کررہا ہوں تو بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں، اس شخص کی پھر سے آواز سنائی دی۔
اسماء خاموش تھی۔۔۔اس نے ذرا دیر بعد کہا۔ میں آپ سے بات کرچکی ہوں اور یوں بار بار فون مت کیجئے۔آپ کی غلط فہمی میں دور کردوں کہ آپ کی جو بھی رائے جو کچھ بھی سوچ ہو مجھے اس سے کوئی مطلب نہیں ہے ، لیکن ......لیکن آپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم جہاں اپنے حق اور دم کا دعویٰ کرتے ہیں وہ وہاں بجا ہے یا کہ نہیں ، ورنہ یہ صاف طور پر عام ذہنیت والوں کی نظر میں گستاخی سمجھی جاتی ہے۔ آپ اب مجھے پریشان کر رہے ہیں۔
دوسری جانب خاموشی سلسلہ وار انداز میں بہہ رہی تھی، پھر ایک بناوٹی صدا سنائی دی۔۔۔
میرا ہرگز یہ مقصد نہیں تھا کہ میں آپ کی شان میں گستاخی کروں اور ایک گستاخ کی حیثیت اختیار کرلوں ۔۔۔میری شخصیت پرخلوص اور باعزت فرد کی ہے۔ میری حیثیت، عہدہ، وقار اور تعلیم کے لوگ قائل ہیں ۔ آپ مجھے کوئی راہ پر چلتا ہوا یوں ہی کوئی مجنوں نہ سمجھ لیں۔
اسماء اس کی باتوں پر غور کررہی تھی اور سوچ رہی تھی کہ اپنے شخصی خاکے پر جس فرد کو اس قدر تکبر ہے وہ پھر ایسی نازیبا حرکت کیوں کررہا ہے۔
اسمانے اپنی مصروفیت کے باعث اس شخص سے التجا کی۔۔۔
معاف کیجئے میں ابھی ذرا مصروف ہوں اور اتنی دیر تک بات کرتے ہوئے عجیب لگ رہا ہے، اس لیے اپنے گفتگو کے سلسلے کو یہیں ختم کردیں تو بہتر ہوگا۔ فون کی دوسری جانب سے آواز آئی۔۔۔
اگر آپ میری وجہ سے پریشان ہورہی ہیں تو میں اپنی اس جرأت پر پشیمان ہوں۔آپ سے گفتگو میرے لیے قابل ناِ فراموش احساس ہے اس لیے ابھی تو ترک کرتے ہیں ، لیکن شام میں فون ضرور کروں گا ، اگر آپ اجازت دیں تو۔
شام۔۔۔شام میں کیوں ۔۔۔ بات کرنی تھی وہ مکمل ہوگئی۔۔۔ اب کیا بات باقی رہی۔۔۔ میری اور بھی مصروفیات ہیں۔۔۔ فقط باتوں سے ہی زندگی کا گذر نہیں ہے۔۔۔ اسماء نے ذرا سختی سے جواب دیا۔
جی جانتاہوں باتوں سے ہی زندگی کا گذر نہیں ہے لیکن زندگی میں باتوں کی اور کسی کے پیار کی بہت ضرورت ہے۔ ابھی اس شخص کی بات مکمل بھی نہ ہوئی تھی کہ اسماء نے اکتاکر فون رکھ دیا۔۔۔
وہ حیران ہوئی ، اپنے اس مقالے کی جانب غور کرنے لگی جس نے اسے اس نئی مصیبت کے زیر مقابل لاکر کھڑا کردیا تھا۔
شام کے ۷ بجے تھے۔۔۔اسماء الماری میں اپنی ضروری چیزوں کو ترتیب دے رہی تھی کہ فون کی گھنٹی سنائی دی۔
اسماء نے فون اُٹھایا۔۔۔ تو دوسری جانب وہی صبح والی آواز سنائی دی۔ آواز میں نہایت اپناپن اور فکر کا عنصر شامل تھا۔
کیسی ہیں آپ۔۔۔اس نے دریافت کیا۔
جی اللہ کا کرم ہے۔۔۔ اور معاف کیجئے میں اس وقت ذرا دوسرے کاموں میں الجھی ہوں آپ سے بات نہیں کرپاؤں گی۔۔۔ اللہ حاف٭۔۔۔
اسماء نے جتنی جلدی ہوسکتا تھا اپنی بات کہی اور فون بند کردیا۔ اس دن کے بعد اب یہ روز کا معمول ہوچکا تھا کہ وہ شخص اسماء کو صبح اور شام کو ٹھیک اسی وقت فون کرتا جس وقت اسے اول روز فون کیا تھا۔
فون کی آواز ہوتی اور اسماء عجیب پس و پیش میں مبتلا ہوجاتی، کبھی وہ فون اٹھاکر رکھ دیتی ، کبھی ٹال دیتی تو کبھی اسے اس قدر غصہ آتا کہ فون کی آواز ہی اسے ناگوار گذرنے لگی۔
جی چاہتا فون کنیکشن ہی ہٹا دے۔لیکن یہ اس مصیبت کا حل نہیں تھا۔ دن گذرتے رہے اور وہ شخص اسی مستعدی کے ساتھ فون کرتا رہا۔ ایک دن دوپہر کے وقت اسماء کسی کتاب میں اپنے ایک سوال کا جواب تلاش کرنے کی غرض سے کھوئی ہوئی تھی ، وہ لاکھ ڈھونڈتی، لیکن ناکام ہوجاتی کہ فون کی آواز سنائی دی۔ اس نے وقت دیکھا ۔ چار بجے تھے۔ ایک سکون کی سانس لے کر وہ بے پرواہی کے ساتھ فون ریسیو کرنے اٹھی۔
ہیلو۔۔۔اسماء نے رسماً کہا۔
جی۔۔۔کیسی ہیں آپ؟۔۔۔ اس وقت فون کررہا ہوں، یقیناًآپ مصروف نہیں ہوں گی۔کیوں آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ، میں اس وقت بھی مصروف ہوں اور کچھ زیادہ ہی مصروف ہوں ۔۔۔اسماء نے روکھی سی آواز میں جواب دیا۔
کیا بات ہے۔۔۔ آپ کو میرا فون کرنا اتنا ناگوار کیوں گذرتا ہے۔۔۔ میں تو بہت امید کے ساتھ آپ کو فون کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ آپ مجھ سے فرصت سے بات کریں لیکن جب بھی ہماری بات ہوتی ہے آپ بیزار ہوجاتی ہیں یا کتنی بار میرا فون ریسیو ہی نہیں کرتیں۔ یہ غلط بات ہے کوئی آپ سے محبت کرتا ہے ، آپ کی خیریت کے لیے پریشان ہے اور آپ سے نظرانداز کررہی ہیں۔
اس شخص نے ناراضگی کے ساتھ اپنی بات کہی تو اسماء خود پر قابو نہ رکھ سکی اور اس کا غبار پھٹ پڑا۔
آپ خود کو سمجھتے کیا ہیں۔۔۔ اتنے دن سے پریشان کر رکھا ہے۔۔۔ فون۔۔۔فون۔۔۔فون۔۔۔عاجز آگئی ہوں میں ، کیوں کروں میں آپ سے بات۔۔۔ یہ ڈرامہ بند کیجئے۔
میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ آپ اس حقیقت کو تسلیم کرلیجئے۔ آپ کو ہر طرح سے خوش رکھوں گا ۔۔۔ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دوں گا۔۔۔آپ میری زندگی میں آجائیں۔۔۔ہماری زندگی خوشیوں سے پُر ہوگی، اس میں ہر طرف محبت ہی محبت کے نظارے جواں ہوں گے۔
آپ کو شرم آنی چاہیے۔۔۔آپ کسی غیر عورت سے ایسی واہیات باتیں کر رہے ہیں اور اسماء نے فون کا ریسور رکھ دیا۔ فون بند ہوگیا۔
اسماء کا سردکھنے لگا تھا۔۔۔ وہ مایوس ہوکر صوفے پر بیٹھ گئی۔ کہ فون کی آواز پھر سنائی دی۔
اس بار اسماء نے اس شخص کو سبق سکھانا ہی ضروری سمجھا اور فون اُٹھایا۔
اسماء یہ کیا مذاق ہے آپ ہر بار بات کیے بغیر ہی فون کاٹ دیتی ہیں، اس شخص نے بہت انداز کے ساتھ اپنی شکایت پیش کی۔
آپ کون ہیں۔۔۔میں آپ کو جانتی نہیں۔۔۔پہچانتی نہیں۔۔۔پھر یہ فون کرکرکے آپ ثابت کیا کرنا چاہتے ہیں ، آپ کی خواہش کبھی حقیقت میں تبدیل نہیں ہوسکتی۔۔۔اسماء نے صاف گوئی سے کا م لیا۔
کیوں۔۔۔ محبت کرنا گناہ ہے۔ یا میں آپ سے زبردستی رشتہ کے لیے آپ کو مجبور کررہا ہوں۔۔۔بتائیں۔۔۔ میں تو بہت شائستگی کے ساتھ آپ سے میری زندگی میں شامل ہوجانے کی درخواست کررہا ہوں اور آپ ہیں کے بے جا طور پر مجھے ٹھکرا رہی ہیں۔
آپ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔۔۔ یا اخلاقی طور پر پست ہیں۔۔۔ اپنے کردار کی بہت ہی شرمناک صورت آپ نے پیش کی ہے۔
جب میں آپ سے ہزار مرتبہ کہہ چکی ہوں کہ آپ جو چاہتے ہیں وہ ناممکن ہے تو کیوں اس کی رٹ لگائے ہیں۔۔۔اتنی عقل تو رکھئے۔آخر سمجھدار انسان ہیں ہر طرح سے آپ کو بتلا چکی ہوں ، لیکن آپ ہیں کہ ماننے کو تیار نہیں ہیں۔ میں آپ سے تنگ آچکی ہوں اور اب میں اور برداشت نہیں کرسکتی۔۔۔اسماء نے تلخی کے ساتھ کہا۔
ٹھیک ہے ۔۔۔آپ نہیں چاہتیں کہ ہم سفر بنیں ۔۔۔ ہماری زندگی خوشحالی سے گذرے، ہماری محبت کے پھول کھلیں ہماری دنیا ایک ہو۔ خواب وخیال روشن ہوں اور ساتھ ساتھ ایک چھت کے نیچے ہمارا پیار پروان چڑھے۔ تو میں آپ سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک آپ خود مجھ سے محبت کا اعتراف نہیں کرتیں ۔۔۔جب تک آپ اپنی مرضی ، اپنی خوشی سے مجھے قبول نہیں کرتین ، تب تک میں آپ پر کوئی زور نہیں دوں گا۔آپ سے کوئی شکوہ شکایت نہیں کروں گا ۔۔۔آپ جب خود اپنے آپ میری محبت پر اعتبار کرکے میرے قریب آئیں گی تب ہی میں اپنی محبت و ستائش کی رونمائی کروں گا۔ آپ باشعور، قابل، ذہین اور سمجھدار ہیں۔ میں آپ کو وقت کے سہارے چھوڑ رہا ہوں۔ شاید ایک دن ایسا آئے کہ آپ خود بہ خود میرے قریب آئیں اور مجھ سے محبت کا اعتراف کریں۔ اس شخص نے سنجیدگی کے دامن کو تھام لیا ..............
اسماء اسے غور سے سن رہی تھی ، اس کے ذہن میں طوفان برپا تھا۔ وہ کہنے لگی یقیناًمحبت ایک عجیب کیفیت ہے کہ جس کی زندگی اس کے زیر اثر ہو اس کی صبح و شام عشق کی فراوانی میں ہی گذر جاتی ہے۔ لیکن یہ عشق کی عجیب داستان تھی۔۔۔ جس میں ایک انجان شخص اپنی محبت کا دم بھر رہا تھا۔ اسماء اس کی آخری چال پر بھی جذباتوں کی مضبوط دیوار کو تھامے رہی اور اس فرد کی چالاکی پر حیران رہ گئی۔پھر اسماء نے اس امید پر فون رکھ دیا کہ شاید اس انسان کو عقل آگئی یا کسی طرح سے اس کی فکر نے حقیقت سے اس کا ناطہ جوڑدیا۔
فون رکھ کر اسماء نے سکون و راحت کی سانس لی ۔ اس نے محسوس کیا کہ جو الجھن اسے گذشتہ کئی مہینوں سے پریشان کیے تھی آج اس سے نجات مل گئی۔ اسے دماغ پر سے ایک بوجھ ہلکہ محسوس کیا اب جیسے وہ اس کی بندش سے آزاد ہوچکی تھی۔
دوسرے دن صبح اسماء کالج کے لیے تیار ہورہی تھی اور اپنے لیکچر کی لسٹ پر نظر جمائے تھی کہ فون کی صدا سنائی دی،
اس نے بے پرواہی کے ساتھ فون اٹھایا ۔۔۔ہیلو۔۔۔فون کی دوسری جانب سے آواز آئی،
کیسی ہیں آپ ..........................آپ کو کیا لگا۔
میں فون کرنا بند کردوں گا .................. فون تو کروں گا لیکن ہاں آپ سے کوئی بھی غلط بات نہیں کروگا۔ بس دن میں ایک بار اپنی آواز سنا دیجئے تاکہ جینے کا سبب میسر ہوسکے۔
ایک شوخی سے پر آواز سنائی دی، لیکن اس آواز نے اسماء کے کانوں میں زہر گھول دیا
وہ تلخی سے بولی۔ا للہ آپ انسان ہیںیا نہیں۔۔۔یا پھر خارج العقل ہوچکے ہیں۔ اسماء نے فون کاٹ دیا ۔۔۔ اور بے چاری پھر سن ہوکر صوفے پر گر گئی۔
شاید اس لیے کہ جس مصیبت کو وہ سمجھ رہی تھی کہ ٹل گئی وہ اب بھی اس کی فون لائن میں اٹکی تھی۔ اب تو وقت ہی اس مشکل کو آسان کرے کہ ایک دم سے اس کے ذہن میں آیا اور اسنے ایک جھٹکے کے ساتھ فون کا تار اُکھاڑ دیا۔
آخر زندگی میں کچھ مسئلے خود کو تکلیف دے کر بھی سلجھائے جاتے ہیں۔ اسماء یہ سوچ رہی تھی کہ آج اگر عورت کامیاب ہونے کی کوشش کرتی ہے تو اسے چند بددماغ لوگوں سے بھی جوجھنا پڑتا ہے، لیکن اس طرح کی حالت میں عقل سے کام لے کر ان غلط لوگوں سے بچاجانا ہے۔ لڑکیاں اکثر ایسے ہی بھلاؤںٗ اور بہکاوے والی چکنی چپڑی باتوں میں آکر اپنی زندگی برباد کردیتی ہیں۔ ان مسئلوں پرغور کرنا ہی بہتر ہوتا ہے ورنہ زندگی کی روشن راہیں ہمیں فراموش کردیتی ہیں اور ہم ان چھوٹی ظاہری باتوں کے خول میں پھنس کر دنیا کی سیاہ تصویر کے منظر بن کر رہ جاتے ہیں۔ فون اب بھی زمین پر گرا ہوا تھا.............
شاید یہی اب اس مشکل کا آخری حل تھا ۔۔۔فون بے جان ہوا اسے دیکھ رہا تھا۔
از :ڈاکٹر زیبا زینت
Comments
Post a Comment