Allama Iqbal علامہ اقبالؔ اور وجودِ زن کا بیان



علامہ اقبالؔ اور وجودِ زن کا بیان



از : ڈاکٹر زیبا زینت

صنف نازک کا ذکر اردو ادب میں بڑی شدت کے ساتھ احترام و اعتراف کے ہمسایہ شعراء و ادباء نے بہت شگفتہ انداز سے کیا ہے۔ رب العزت نے جس شے کو تخلیق انسانی کا ذریعہ بناکر دنیا میں اتارا، اور جس کے بطن سے پیدا کرنے کی طاقت و قوت عطا کی ، جس عورت کو اللہ نے دنیا میں سب سے بڑا رتبہ ’ماں‘ عطا کیا اور جس کے قدموں میں جنت کا راستہ موقوف کردیا اس عظیم وبلند صنف کے منور و شاداب استعداد کارِدراز کی ستائش و اطاعت کے پیامات دانشورانِ فن نے سنہری روشنائی سے قلمبند کر تاریخ میں ثبت کردیئے ہیں کہ جس میں ہر ادا و فن ، محبت، چاہت، انسیت ، الفت ، قابلیت و جاذبیت ، ہنرمندی و صبر و ضبط کا قابلِ قدر و بیش بہا سرمایہ بالخصوص پیش کیا ہے ، یہ مقام عورت ہی کو حاصل ہے کہ جو ستوئش کے عمل پر درجہ اول حاصل کئے ہے۔
اردو ادب میں جہاں ایک طرف غالبؔ ، میرؔ ، داغؔ ، حالیؔ ، سوداؔ نے عشق و محبت سے لبریز نغمے راحت قلب کیے ہیں وہیں ذوقؔ ، نظیرؔ ، آزادؔ ، فراقؔ ، مومنؔ کے ذہن نشین کلام سے بھی وابستہ کرایا ہے کہ جس کے درمیان عورت سے عشق کے ترانے بھی گوش کن ہیں اور اس کے وصل و ہجر کے پر اثر لمحات کے مناظر بھی اپنے حسن کے رعانائی شگوفوں کے ساتھ ظاہر ہیں۔ زن کے حسن کی آرائش بھی ہے، تو وہیں بالخصوص اس کے وقار و جاہ و جلال کے قصیدے بھی تحریر کیے ہیں۔
لیکن عورت کے مذہبی کردار ور رہبری کے مطابق سب سے بہترین و دل نشیں تحریر شاعر مشرق علامہ اقبال ؔ کے تاثرات و احساسِ فکر سے ہوکر عیاں ہوئی ہے کہ جس کے درمیاں نسائی کردار کی مختلف عظمت ، پراعتماد شخصیت کو بیحد شائستہ انداز سے ہم آہنگ کر ابھارکر پیش کیا ہے۔
جوہرِ مرد عیاں ہوتا ہے بے منت غیر
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہرِ عورت کی نمود 
راز ہے اس کے تپِ غم کا یہی نکتہء شوق
آتشیں لذتِ تخلیق سے ہے اس کا وجود 
علامہ اقبالؔ نے حقائق و عقائد پر فلسفیانہ مطالعہ کیا ہے اور اپنے تاثرات کا انیق مجموعہ فکر انسان کے روبرو پیش کردیا ہے۔اقبالؔ نے مختلف موضوعات گویا علمی، ادبی و اخلاقی میلانات پر بڑی شدت سے شعر کہے ہیں ۔ ایک بے مثال محقق کے طور پر وہ زبان و ادب ،وحدت ، انسانیت، حدیث، قرآن، تفسیر و فقہ، فلسفہ و سیاست ، قومی اتحاد، فرقہ، ذات ، مرد وزن ، مناظرِ قدرت اور سب سے ابد سلسلہ خودی و بے خودی کی وسیع وادی تک علامہ اقبالؔ نے اپنی فکر کے جوہر دکھائے ہیں۔ ایک مرد مومن کی نگاہ سے اقبالؔ نے ہر شے کو فراخ دلی سے نہارا ہے ،انسانی فطرت و ماحول پر اپنی مکمل توقع سے غور کیا ہے اور یہی وہ اصل وجہ ہے کہ جس کے باعث اقبالؔ شاعرِ مشرق کے خطاب سے نوازے گئے۔علامہ کو حکیم الامت کا خطاب بھی حاصل ہے۔شاید اس لیے کہ اقبال نے اپنی قوم کی خودی اسکی بہبودی پر شدت کے ساتھ قلم اٹھایا۔ جسکی سب سے ضامن سوچ یہ تھی کہ اس کے زیرِ اثر انسانی سیرت و صورت و بلند کرداری کی نشونما اور رہنمائی کی جائے۔لحاظہ انکی تحریر سے یہی وضاحت بھی ہوئی
جو عالمِ ایجاد میں ہے صاحبِ ایجاد 
ہر دور میں کرتا ہے طواف اس کا زمانہ
تقلید سے ناکارہ نہ کر اپنی خودی کو
کر اسکی حفاظت کہ یہ گوہر ہے یگانہ 
اقبالؔ کے بے شمار کارناموں پر متعدد کتابیں تصنیف ہوئیں ہزارہا مقالے، مضامین شائع ہوچکے ہیں ۔ علامہ اقبال نے انہیں میں بہت فلسفیانہ انداز میں عورت کی صنفِ موضوع پر بہت گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور اس کی قدر و قیمتی بے جوڑ، جداگانہ لہجے میں اپنے تاثرات تحریر کیے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے شاہکارانہ نسائی کردار حضرت فاطمہ بنت عبد اللہ پر علامہ اقبالؔ نے نہایت اثردارنظم تحریر کی کہ جس کے درمیاں عورت کی پاک روئی ، خدمت گذاری اور بلندی کے خیالاتِ زرین کو اس لیاقت مندی سے پیش کیا ہے کہ تاریخ کا وہ روشن و منیر لمحہ نظروں کے سامنے زندہ ہوجاتا ہے۔
فاطمہ بنت عبد اللہ عرب لڑکی جو طرابلس کی جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی شہید ہوئی 
فاطمہ! تو آبروئے امت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے 
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر 
ہے جسارت آفریں شوقِ شہادت کس قدر
جس وقت کہ اسلام کی بقا کے جذبہ کی صورت مشعل دلوں میں روشن تھی اور اپنی قوم کی فلاح و بہبود کی فکر میں ،اپنے پیارے سرورِ ؐدو عالم کے پیغام کی اطاعت کی غرض سے ہر ذہن اس مقصد کی جانب راغب تھا ۔ اس دور میں کہ جب کافر امتِ نبوی پر ظلم و جبر پر آمادہ تھے ہر طرف ان پر ستم ڈھائے جارہے تھے، اس دور میں بھی عورت کے سب سے مضبوط اور باوقار کردار حضرت فاطمہؓ نے صبر ع ضبط و استقلال کے دامن کو تھام کر اپنی آمد سے اس جنگ میں وہ اہم خدمات انجام دیں کہ ہزارہا مصیبتوں اور مشکلوں سے مسکرا کر ناتا جوڑ لیا ۔ ا س ذی شعور و پاکدامن بیٹی کی شان میں علامہ اقبالؔ نے دلسوز جذبات کی عمیق لڑیاں احتراماً سجائی ہیں کہ لفظ خود پر مغرور ہیں اور تحریر اپنی خوش نویسی پر حیران ہے۔
علامہ اقبال جن کو حکیم الامت کہا جاتا ہے۔دراصل انہیں ہی یہ شرفِ عمل حاصل ہے کہ جس نے زمانے کے پیش رو آئینہ کے رکھ دیا اور اپنی قوم کو اس کی بیماری پستہ حالی بالخصوص دیمک آلودہ نظریات کی بندشوں سے روشناس کرایا۔ایک حکیم کی حکمتِ فیضانی نظر سے علامہ اقبال نے معاشرے کی تنگ نگاہی، کوتاہی، مجبوری اور دائرہ بندی کو بہت شدت سے محسوس کیا۔ انہوں نے عورت کے وقار و طرفگی ،فرحت وانبساط کی زبردست افادیت میں بیان دیئے کہ جس قوم میں نسواں کا احترام و عزت و مقام قائم نہیں ہے وہ قوم اپنے ان ہی اصولوں سے پاش پاش ہوجائے گی۔ عورت کا کردار ہماری نسل کی نشو و نما میں اہم ہے ،اس کی ذہانت و محبت کے سبب ہی زمانے کا افتخار ہے۔ اس کے صبر و قناعت پسندی کے اثر سے ہی خوشحالی کا چراغ روشن ہے،اسے اس دور میں جب کہ مغربی تہذیب ہم پر حاوی ہورہی ہے ایسے حالات میں اسی طرز پرعورت کو بے چین و مضطرب کرنے والوں کی کہیں کوئی بساط قائم نہیں رہیگی،اسلام نے عورت کو مقامِ احترام عطا کیا ہے ،ایک دین مزین و زینت آرا محصنہ کو نعمت کا لقب دیا ہے مروت و عزت اس کا حق ہے ۔اپنی ایک نظم ’’عورت‘‘ میں اس کے اعزاز بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوزِ دروں
شرف میں بڑھ کے ثریاّ سے مشتِ خاک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درِ مکنوں
مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرارِ افلاطوں
جس وقت حکیم الامت نے زنانہ کردار کی صلاحیتوں پر غور کیا اور اس کے اصل مقصد کی جانب زمانے کو آگاہ کررفتار پذیر کیا وہ اس سے بھی واقف تھے کہ اس زمانے کی تبدیلی منتشر تہذیبیں اور ان کی گرفت میں مایوس کن صنفِ نازک کے حالات ۔لیکن ہماری وہ قدیم مشتاق فضا اب بھی جاری ہے، اس کے درمیان اب بھی روایتوں کے ذرے موجود ہیں۔ حالانکہ نسائی کردار کی آزادی اور حفاظت اب ایک اہم ضرورت تھی، لیکن معاشرے میں کہیں کہیں خاموشی کا پہرہ تھا۔ وہاں اس موضوع پر خاص توجہ واقع نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی عورتوں کی آزادی و ان کی بقا کی صورت نگہبانی کا عمل نظر آیا۔ اس پہلو کو علامہ نے آزادی کا انتخاب کیا کیونکہ آزادی کے بعد ہی ترقی کی راہیں ہموار ہوا کرتی ہیں۔
علامہ کے قلب میں عورت کی بے جا قید و غلامی ایک خنجر کی مانند برپا تھی،۔ وہ اس ماحول سے خاص پریشان و ہراساں تھے کہ معاشرے میں عورت کا وہ مقام نہیں ہے جو اسے اسلام نے دیا ہے اور جو اس کی حیثیت کو زیبا دے سکے۔ جب کہ ہندوستانی معاشرے کا حال تو اس کے بالکل برخلاف ہوا جارہا تھا ۔ یاں عورت فقط ایک غلام باندی ، ایک استعمال کی شے اور آرائش بن کر رہ گئی تھی اس موضوع پر اپنے دیرینہ جذبات سے لبریز ایک نظم علامہ نے تحریر کی اور اپنی شکایت واضح کی۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادیِ نسواں کہ زمرد کا گلوبند؟
اپنی اس نظم کے ذریعہ علامہ نے عیش پرست اور دولت مند طبقے پر وار کیا کہ جو اپنی رعنائیوں اور چکاچوند میں اپنی تہذیب کے اصل عمل کو فراموش کررہے ہیں اور خاموش عورت ان کے ظلم کا نشانہ بنتی جارہی ہے۔ صنفِ نازک کی فقط اداؤں کو نہارا جارہاہے۔ اس کے کرب ترپ پر جبرپرست معاشرہ آنکھ موندے ہوئے تھا۔ عورت کی تعلیم، حفاظت اور ترقی کے سوال پر سب خاموش تھے جب کہ عورت خود اپنی بدحالی پر اشک بار خاموش تھی۔ وہ قوم و ملک کی اہم حصہ دار تو ہے لیکن اپنی عسرت سے نجات کی کوئی راہ دستیاب نہیں۔
علامہ اقبالؔ کا سب سے اہم اور بہترین کارنامہ عورتوں کی فلاح کے مقصد سے یہ تھا کہ انہوں نے مسلمان خواتین کی تعلیم کی حمایت کی ہے، انہوں نے اسی موضوع پر بہت اعتراف کے ساتھ بیان کیا ہے کہ مسلمان خواتین کو دینی مذہبی تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔اسلامی تاریخ اس کی روشن روئی اور اخلاق پسندی سے خواتین کو منسلک کرنے کی پرزور حمایت کی ہے کیونکہ تہذیب و مذہب کی روشنی کے زیر اثر ہی عورت کی اصل تخلیقی ذہن کا عمل بظاہر نظر آتا ہے۔ اس کی دینی صلاحیتیں، نظریات، فکر و فن ، سیرت و امر ، عقائد و خیالات بخوبی طور پر ابھر کر سامنے آتے ہیں اور زندگی کی بنجر زمین پر علیٰ اخلاقی ،تہذیبی اور نادر دینتاتی گلوں کے خوبصورت باغ پیدا ہوتے ہیں۔
دین و دنیا میں رحمت ونعمت کا لازمی قرب مذہب سے قربت کے بعد ہی نظر آتا ہے اور اگر ہماری قوم کی عورت اسلام کے احکام و فرائض سے رغبت اختیار کرلے تووہ بہتر طریقے سے قوم کو راہِ تقویت کی جانب رفتار پذیر کرنے کی طاقت رکھتی ہے عورت کا اصل حسن اسکی پاکدامنی اور دینداری کی پرورش ہے اور اس ضمن میں یہ بھی کہتے ہیں کہ گر عورت اپنے احکامِ دین سے درگذر کرجائے اور دیگر غیر اعتبار رسموں کی بیڑیوں میں جکڑ جائے تو اس کی تمام عمر سوائے غفلت و تاریکی کے کچھ حاصل نہیں کرتی۔ علامہ اقبالؔ نے اسی انداز پر عورت اور تعلیم کے عنوان سے بہترین و اثردار اصلاحی نظم تحریر کی ہے۔
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اس علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہء زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
علامہ اقبال نے زندگی کے ہر گوشے پر اپنے تحقیقی نظر کے ہم سایہ فکر کی پرواز بلند کی ہے۔ ان کے غور و فکر کی رہنمائی کرتے ہوئے اقبال کی پُر اقبال سوچ نئے افکار و نظائر کا نادر خزینہ پیش کرتی ہے۔ نہ کہیں یہ الفاظ نظر آتے ہیں اور نہ ہی کہیں اس ذہانت کے آبشار ہی میسر ہیں۔ یہ اقبالؔ کا ہی جوہر ہے کہ وہ دنیا سے بھی مخاطب ہیں اور دین و مذہب سے معطر ہیں۔اخلاق پر مبنی ہیں اور خلوص پر قائم حقیقت شناس ہیں اور ہمدردی کے پیامبر، محبوب سیرت ہیں اور ادب کے سکندر۔ مشکلات کے کشاکش ہیں تو فلسفہ کے دانشور ۔ خودی و بے خودی کے عالم اور حکیم الامت ۔ پر عظمت و بلند مقام شخصیت نے ہی اپنے معاشرے کی خواتین کا گہرائی سے جائزہ لیا اور انہیں عصر حاضر کی بیداری اور مصلحتوں سے واقف کرایا۔ان کے اعتماد کو بحال کیا اور مذہب کی طاقت قرآن کی نعمت اور حدیث نبوی کی خاصیت سے آگاہ کیا اور معاشرے کو عورت کی ایک الگ تصویر پیش کی جس نے خواتین کی زندگی پر گہرا اثر ڈالا۔
اک زندہ حقیقت میرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
بے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہوکہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

Comments

Popular posts from this blog

Tazkirah nigaari

Shakeel Badayuni

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam