Urdu Zaban aur asre jadeed عصرِ جدید میں اردو زبان کے تقاضے اور مسئلہ روزگار



عصرِ جدید میں اردو زبان کے تقاضے اور مسئلہ روزگار



قرآن حکیم میں جگہ جگہ فرمایا گیا ہے کہ ’’کائنات اور آثار کائنات پر غور وفکر کرو پھر فرمایا کہ کائنات پر غور وفکر وہی لوگ کرتے ہیں جو زیورِ علم سے آراستہ ہیں‘‘۔ علم انسان کی شناخت وبصارت انسانیت کے سفر کا انیق ذریعہ ہے اسی سے انسان نہ صرف دیگر مخلوق پر بلکہ ہم جنسوں پر بھی برتری و اتالیقی حاصل کرتا ہے، یہ واضح حقیقت ہے کہ علم وتعلم کمی وفقدان سے قوموں کی توانائی ختم ہوجاتی ہے ذہن ودل انتشار وپسماندگی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔
اردو زبان وادب بھی ایسے ہی دو راہے پر حیران کن ہے کہ جہاں اسے نہ اپنے خیر خواہ ہی نظر آتے ہیں اور نہ ہی زبان سے مروت وقربت کے پر خلوص وخالص افراد ہی میسر ہیں کہ جن کے قلب میں اردو کا عشق روشن ہے اور ذہن میں اس کی ترقی کے موافق امکان ہی شعلہ زن ہیں، عصر حاضر بڑی محنت ومشقت کے ساتھ اردو کو تھامے ہمارے روبرو ہے، یا یوں کہیں کہ اردو اپنے آپ کو موافق مواقع فراہم کر کسی طور خود پر اعتبار کر پھر سے رونما ہوئی ہے۔
پروفیسر گوپی چاند نارنگ کا قول ہے کہ زبان کی ترقی کی جب بات کرتے ہیں تو، اردو کے مسئلے پر سب سے بڑی بد نصیبی یہ ہے کہ ’’ اردو زبان کا تعلق فقط مسلمانوں سے جوڑنے کی سازش کی جاتی رہی ہے، جب کہ ذرا موازنہ کیجئے کہ انگریزی کو کبھی کہیں بھی انگریزوں کے جی استعمال پر زور نہیں دیا جاتا وہ بین الاقوامی زبان کے طور پر ہر جگہ رائج ہے اور اس کے استعمال ودسترس کے پُر زور کام رواں دواں ہیں وہیں اردو اپنے محدود دائرے میں قید ہوئی جارہی ہے۔
پروفیسر عبد المغنی لکھتے ہیں کہ ’’ مجموعی طور پر اردو ادب ملک ومشرق کی آبرو ہے اور اس کا موازنہ یورپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد کے ادب سے بخوبی کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اردو کی ترقی، قومی تہذیب کی بقا وترقی کے لیے ضروری ہے، ہندوستان کے باشعور محبان وطن اس حقیقت کی جتنی جلدی سمجھ لیں، ملک میں انسانیت کے مفاد کے لیے اتنا ہی بہتر ہوگا، ورنہ جنوبی ایشیا کے سب سے اہم خطے میں اعلیٰ اقدار کا فقدان ہو جائے گا، اردو ادب بین الاقوامی حیثیت رکھتا ہے برصغیر کے لطیف ترین احساسات اور بلند ترین افکار کو اس کے بغیر سمجھا ہی ہیں جاسکتا، ویسے اردو ادب کسی حکومت کا محتاج نہیں یہ تہذیب کا عمل ہے، اقتدار کا کھیل نہیں‘‘ ۱؂
آج ہم اردو کے فروغ کی گفتگو میں محوہ خیال ہیں اس ضمن میں اولاً جو مدعا پیش نظر ہے وہ ہے اردو وتعلیم کا معیار وتربیت کے نظام کا معیار قائم کیا گیا جائے کیوں کہ بچے کی تعلیم گر مادری زبان سے شروع کی جائے تو اس کی صلاحیت اور قابلیت میں گونا گوں اضافہ ہوگا مادری زبان کے ذریعہ دی گئی تعلیم سے ہی تہذیبی، اخلاقی نشو نما کا کردار ادا ہوگا وہیں، قابل قدر واعتمادشخصیت کے رنگ بھی ابھر کر سامنے آئیں گے۔
اردو کے ہمراہ دوسری بڑی مشکل آج اس سے ناآشنائی کی صور ت میں نظر آنے لگی ہے، ہم عام بول چال میں ہندی انگلش کے استعمال کو معاصرتی شعور فیشن کا نام دے کر قرب فرمائے ہیں جبکہ ہمیں زیادہ سے زیادہ سلیس اردو کے تحفظ وقرب کے ذریعہ مستحکم کوشش کرنی چاہیے ، اس سے نہ صرف قدامت وروایت کا سانچہ مضبوط ہوگا وہیں، آواز میں شگفتہ بیانی بھی پیدا ہوگی۔
عزیز برنی اپنی ایک تقریر میں کہتے ہیں کہ’’ اردو محبت والفت اور رفعت وشفقت کی زبان ہے جس نے آپسی اختلافات کو ختم کرکے سماج میں اخوت جہانگریری اور محبت کی فراوانی کا ماحول پید اکیا ہے۔
حضرات ! اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ مسلمان تعلیم کی اہمیت اور زبان اردو کی مسئلہ پر بے پرواہی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں اور محض ایک ہی رٹ لگائے ہیں کہ ترقی و کامیابی کا راستہ سوائے سائنس وتکنیک کے اور دیگر کسی کے ہمقدم حاصل نہیں ہے، اردو بولنے میں شرم آتی ہے اوربعض وقت تو یہ بھی کہا گیا ہے کہ اردو والے سائنس وریاضی کا مزاج سمجھنے میں قاصر ہیں اور اسے بالکل تکنیک سے علیحدہ کردیا، لیکن ذرا غور کیجئے تعلیم کے بڑے مراکز دہلی، علی گڑھ، دیوبند میں آج سے تقربیاً 150-100سال قبل ہی سائنس ، ریاضی، ہیئت، طب، اخلاق وادب ، قانون، تاریخ ، حدیث، فقہ وغیرہ کئی موضوعات پر قابل قدر کتابیں لکھی گئیں اس وقت سرشاہ محمد سلیمان ریاضی کے دانشور، سر سید احمد خاں، مولانا شبلی نعمانی، عبد الحق، تفضل حسین خاں، علامہ سبحان خاں، نور الحسن ہاشمی، محمد حسین آزاد، اقبال اور ہزار ہا وہ عظیم شخصیات ہیں کہ جن کی خدمات نے اردو کو اس وقت بلندی پر فائز کیا تھا۔
شمس الرحمن فاروقی اپنے مقالے میں لکھتے ہیں کہ’’اردو زبان وہ پری ہے کہ جس کی ایک ادا آپ سیکھ لیں تو وہ اپنی دس ادائیں آپ کو اپنے شوق سے سکھا دے گی، اور تب آپ کو زندگی میں حسن ومغنی دونوں نظر آئیں گے، بنیادی بات یہ ہے کہ اہل اردو کو زبان اردو سے محبت نہیں ہے، اردو کے ساتھ ہمارا رویہ وہ ہے جو زبردستی کی شادی کے ساتھ ہوتا ہے کہ بس نبھائے جا رہے ہیں، اور موقع ملے تو چھوڑ دیں، ہمارا رویہ عشق کا نہیں ہے‘‘۔
دورِ حاضر اپنے تئیں اردو زبان کے ماضی سے بالا ذکر کارہائے راہیں، بیش قیمتی قدر پذیر اور ذوفشاں دور کا سرمایہ سمٹے ہوئے ہے، آج اردو مغرب ومشرق میں گلوبلاٹیزیشن کے دور میں ترقی ہم سفر ہوگئی ہے، آج دنیا میں اردو کی سینکڑوں ویب سائٹس، انکی تنظیمیں، ادارے، انجمن، مجلات، جریدے، اخبار ، ای بلاگ، ای پیر او ای اردو ورلڈ کا وسیع دائرہ مجموعہ لگائے ہمارے سامنے ہیں۔ فرانس، لندن، کینڈا، امریکہ، ہالینڈ، جرمنی، ٹوکیو، ماروے ، اسٹریلیا، وغیرہ جیسے میں نہاہیت ترقی یافتہ ممالک و شہروں میں اردو کی ہزاروں شمع روشن ہیں، اور وقتاً فوقتاً یہ تمام انجمن اپنے شوق اور جذبے کے ساتھ خوبصورت مشاعرے، سیمینار، سمپوزیم، اجرہ، اور ادبی نشستیں منعقد کرتی رہتی ہیں۔
یہ شاہد تقاضہ ہے کہ ہم اردو ادب اور اپنے تہذیب وتمدن کی خوشبو سے اپنے ماحول کومعطر کریں، دین وایمان کی پابندی کے لیے اپنے اہل خانہ وعزیزوں کو ہدایت کریں، ہماری تاریخ وصحابہ کرام کے عظیم کارناموں سے روشناس کرائیں قرآن وحدیث کے حقائق سے وابستہ کرائیں، اور اپنے تہذیبی ورثے کو اس بے حس وجبر پرست دور میں زندہ رکھنے کے لیے اردو ادب کی ڈھال کا سہارا لیں، اسے قریب رکھیں، یہ ضروری ہے ، اس زبان کے سائے میں ہمارا ماضی اور حال پہ در پہ واقع ہے اور وہیں ہمارے مستقبل کے راز بھی پہنا ہیں گر روایتوں کے زیر اثر ہم نے اروز زبان کی رہنمائی کی تو بلا شبہ روز فردہ کا سورج ہمارے واسطے مہروفا کی کرنیں لائے گا یہ عنصر جدید کا تقاضہ ہے کہ دیگر فنون واجب کے ساتھ ساتھ ہمیں فیضانِ اردو کے ہماجہ سفر کرنا ہی ہوگا تاہم زندگی کی مکمل اور حسین تصویر نو کا عمل تحریر کیا جائے گا۔
کیسوئے اردو ابھی منت پذیر شانہ ہے
شمع یہ سودائی دل سوزئ پروانہ ہے
زبان کی پرورش کی راہ میں سب سے قبل ہمیں اردو دوستوں اور مسلم آبادی کے علاقوں پر غور کرنا ہوگا، وہاں اردو میڈیم اسکول قائم کرنے پر زور دینا ہوگا، انکے معیار تعلیم کی بہتر سہولیات ، مفت تعلیم، اور لڑکیوں کی تعلیم پر خاص طور پر زور دینا ہوگا، اقلیتی پروگرام میں اپنے خاص اور لازمی اردو فروغ کی بات اٹھانی ہوگی، اور ان اسکولوں میں جدید تعلیم، تکنیک کمپیوٹر اور سائنس کے انتظام پر بھی غور کرنا ہوگا، اسکول ، کالج، یونیورسٹی میں اردو کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع زیادہ سے زیادہ طالب علم کو فراہم کرانے ہوں گے، طالب علم کو اسکالرشپ فیلو شپ مفت کتابیں اور ضروری چیزوں کے لیے امداد کرنی ہوگی وہیں ان کا حوصلہ بلند کرنے کے ساتھ ساتھ حکومت کے اعلیٰ امتحان میں انہیں شرکت کے لیے تیار کرنا ہوگا تاکہ وہ وہاں ہمارے نمائندہ اپنا مقام حاصل کرسکیں، چھوٹے اردو میڈیم اسکول اور تنظیموں کی مالی امداد اور تحفظ کے لیے ہمارے معاشرے کو مجموعی طور پر کام کرنے چاہیے۔
اردو اخبار ، مجلات، میگزین اور کتابیں زیادہ خرید کر پڑھنے کی عادتیں ڈالیں یہ بھی اردو کی بڑی خدمت ہے، کیوں کہ یہ بھی واضح کردوں کہ تعلیم دستور کی دفعہ350کے تحت اردو بولنے والوں کا بنیادی حق ہے الغرض عوامی اور انتظامی سطح پر اردو کے فروغ کے لیے کام کئے جانے میں کوئی خوف نہیں ہونا چاہیے، اور طالب علم کو چاہیے کہ اردو سے جو ناواقف ہیں ان میں کم سے کم 10لوگوں کو وہ اردو سے وابستہ کرائے اس کی آبیاری میں ساتھ دے تاکہ ہزاروں اردو داں صف بہ صف زبان کی محبت میں حاضر ہوں۔
اردو کے مستقبل کے ساتھ روزگار کا سوال بھی پیدا ہوتا ہے ہندوستان کی 52 Millionآبادی اردو بولتی ہے جو کہ زبان کے اعتبار سے 6% ہے اور دنیا میں اردو چوتھے نمبر پر آتی ہے جس کا کی لوگ عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔وہیں راجستھان میں 12.4%مسلمان ہیں جن میں مرد59%اور50%عورتیں ہیں اور کل آبادی کے یہ 8.47%کا حصہ رکھتے ہیں 2001کی گنتی کے مطابق کہا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی کئی سروے کے مطابق ہندوستان میں3000کے زیادہ اردو کی مطبوعات ہیں اور 405روزنامہ اردو کے شائع کئے جارہے ہیں ۔
اس حساب سے اردو کا رسماً دخل قائم ہے ہماری زندگی میں اردو کا ایک بڑا حصہ اب نظر کے سامنے آرہا ہے اور اس حیثیت سے روزگار کی نئی روشنیاں افق پر منتطر ہیں عتیق احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ ’’ اس میں شک نہیں ہے کہ انسانی زندگی معاش کے گرد، گھومتی ہے اور وکوئی بھی تصور جو معاش کو یکسر نظر انداز کردے وہ زندگی سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا، لیکن معاش کا انحصار صرف ملازمت پر ہی نہیں ہے، تجارت، زراعت، صنعت، حرفت اور ایسے ہی بیت سے دوسرے آزاد پیشے منفعت بخش ہیں‘‘۔
اردو زبان سے تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم کے سامنے بھی روزگار کی صورت میں اچھے اور قابلِ قدر مواقع موجود ہیں، مختصراً ان شعبات کا ذکرحاضر خدمت ہے۔ شعبہ درس وتدریس، محقق یہ تمام سرکاری ملازمت کے طور پر مدرسوں، اسکول ، کالج، یونیورسٹی اور انجمن کے کار گزار کے طور پر فہرست اول روزگارکی اچھی صورت ہے۔سرکاری دفاتر، ریلوے، پولس، ملٹری وغیرہ، صحافت، اخبار نوسی، مترجم، مخطوطات شناس، ایڈٹینگ، کمپوزنگ، ویپ ڈیزائنگ، اردو گائیڈ اور ٹیوٹر، تاریخ نوس اس کے علاوہ ادب سے مطابق شعبے میں شاعر، گیت گار، نظم گو، مکالمہ نگار، ادیب، افسانہ نگار، اردو ٹی وی اینکر، پروگرامر ، ریڈیواناؤنسراور وہیں سرکاری اعلیٰ عہدوں کے لیے، اردو کے ذریعہ آٹی ایس آریس کے اعلیٰ امتحان طالب علم کی ترقی کے لیے بہتر ین راستے ہوسکتے ہیں اور اردو میڈیم کے ذریعہ ان امتحان میں گر محنت کریں تو اچھے نتیجے حاصل کر اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوسکتے ہیں۔
دوسری جانب فارین ایمبیسنر میں بھی اردو زبان کی کافی خواہش ہوتی ہے اردو کے ساتھ فارسی عربی کا بھی مطالعہ کریں تو اس جگہ بھی روزگار کے مواقع پیش رو ہیں۔وہیں گائیڈ کے طور پر بھی اردو زبان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ اردو کے طالب علم اپنی قابلیت کے لحاظ سے ہر جگہ ہی اپنی پہنچان بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جن میں تجارت، پالٹکس قابل ذکر شعبے ہیں۔
حضرات اردو سے روزگار کی کی صورتیں ہمارے روبرو موجود ہیں اور اردو کی ترقی کے امکانات بھی ہمارے سامنے ہیں بس اب ضرورت ہے تو جذبہ، جوش اور زبان کی خدمت کی ضرورت احساس کی، اردو کا مستقبل ہمارا مستقبل ہے، ہمیں راہ بلندی کی جانب اردو کا سہارا لینا ہوگا، اس حقیقت کو جتنی جلد ہوسکے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا کہ گر ہم اردو کی خدمت وفروغ خواہش رکھتے ہیں۔


Comments

Popular posts from this blog

Tazkirah nigaari

Shakeel Badayuni

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam