Shagufta yasmeen pani se maanjhi tak

’’پانی سے مانجھی تک ‘‘ایک دلچسپ سفر:شگفتہ یاسمین


شگفتہ یاسمین ایک خوش گفتار اور مہذب خاتون ہیں اپنی پر کشش آواز کے ساتھ وہ الیکٹرانک میڈیا میں کوشاں ہیں ۔خوش بخت اور شیریں سخن یاسمین کی اولین مطبوعہ تصنیف کا منظرِ عام پر آنا ایک حسین احساس کا حامل ہے اور انکی یہ آمد موجوں کے اضطراب پر واقع ہے ۔ الغرض پانی سے مانجھی تک:تنقید کے آئینہ میں۔
شگفتہ کا تعلق ادب کی اس شاخ سے ہے کہ جہاں ہنر کو قبائے نازنیں کی مانند سنوار کر پیش کیا جاتا ہے اور یہی آراستگی اولین فریضہ کا مقام حاصل کئے ہوتی ہے۔جہاں زبان و بیان میں کوئی خامی تسلیم نہیں کی جاتی ۔ایسے حالات میں مصنفہ نے تنقید کی پر خار دہلیج پر اپنے افکار و تاثر ات کے گل پیش کئے ہیں۔قلم کو چابک دستی کے ساتھ آتش کدے کی راہ پر سفر پذیر کیا ہے جو کہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔مصنفہ نے اپنے اس تنقیدی مجموعے میں مشہور و معروف افسانہ نگار،ناول نگار، ادیب اور شاعر غضنفر کے ناول زیرِ بحث ہیں ۔پانی سے مانجھی تک سے باضبطہ طور پر مراد غضنفر کے وہ تمام ناول ہیں جو منظرِ عام پر آچکے ہیں اور جن میں سے بعض کی قابل قدر پذیرائی بھی ہوئی ۔یہ ایک مجموعی احاطہ ہے لہٰذا قارئین و محققین کے لئے باعثِ فیض بھی ثابت ہوگا۔
ناول کے حوالے سے اب تک متعدد تبصررے،جائزے،تاثر و مفصل مضامین شائع ہو چکے ہونگے اور مختلف ادبا و شائقین ادب نے اپنی فہم کا اظہار بھی کیا ہوگا لیکن مصنفہ نے اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے اپنے ناول نگار کی پہلی کوشش سے لے کر آج تک کے سرمایہ کو ایک ہی غلاف میں سی دینے کا کارِ تحسین کیا ہے ۔غضنفر اپنی ایک مخصوص شناخت رکھتے ہیں ۔اور ہر دفعہ ان کا ایک نیا تجربہ و نیا تجزیہ سامنے آتا ہے بقول غضنفر ’’بڑے کینوس پر دور تک جانے اور دیر تک سفر کرنے کا موقع ملتا ہے او راس سفرمیں طرح طرح کے دلچسپ موڑ آتے ہیں اور طرح طرح کے لوگوں سے ملنے، ان کے باطن میں جھانکنے اور ان کے نہاں خانوں میں چھپی باتوں کو بھی جاننے کے مواقع ہاتھ آجاتے ہیں اور ایک بات او ربھی ہے کہ تجربات کے وسیع و عریض آسمان میں قوتِ متخیلہ اور قوتِ ممیزہ دونوں کو اڑان بھرنے کا خوب خوب موقع ملتاہے۔‘‘
جیسا کہ ادبی حلقے میں پروفیسر غضنفر کی ایک بھرپور شناخت قائم ہے ایک شاعر،افسانہ نگارناول نگار ادیب و محقق کی حیثیت سے وہ جانے جاتے ہیں اور اپنی فنی صلاحیتوں کے شانے پر کب وہ نثر میں شاعری کو داخل کر لیں اور کب شاعری کو نثر سے ملحقہ کر پیش کر دیں اسکی کوئی سند نہیں کیوں کہ ان کے بعض ناول میں ان تجربات کو محسوس کیا گیا ہے ۔دویہ بانی بھی اس کی ایک صاف مثال ہے ۔ مصنفہ نے کتاب کے آغاز کے ساتھ ہی ناول نگار کے فن وشخصیت و اندازِ تحریر و تالیف پر اپنے مشاہدے کا بر جستہ اظہار بھی کیاہے۔’’غضنفر کی ناول نگاری کا مجموعی تاثر ‘‘رقم کرتے ہوئے فرداََ فرداََ اپنی تحقیقی فہم کا مظاہرہ کیا ہے جہاں ان کا شعورِ بیان ابھر کر سامنے آتا ہے ۔اسی باب میں ناول نگار پربھی مجموعی تاثر پیش نظر ہے ۔کسی فنکار کی صلاحیت ،علمیت،ماہیت،وسعتِ عملی ،لیاقت اور قدرتِ فنکاری کا سرمایہ کوزہ نشیں کر پیش کرنا بھی ایک ناقد کا ہنرِ باکمال ہے اور اسی کارِ دراز میں شگفتہ غضنفر کو بار ہا ناپتی تولتی ہیں انکے ہر ہر نگ ،سبز و زرد،ترش و شیریں خیابان جاگتے ہیں الغرض کہ ہر ناول گشت کرتا ہے اور اپنی تخلقیت کا آکاش پیش کررتا ہے ۔وہیں ایک گنجائش مصنفہ نے بھی پیدا کی اپنے الفاظ کو اس انداز میں سادھا ہے کہ 1989 سے2013کا سفر 144سفحات پر جی اٹھتا ہے،لکھتی ہیں:
’’غضنفر کے تخلیقی تیور کو سمجھنے کے لیے ان کے ناولوں کا اسی ترتیب سے جائزہ لیا جانا چاہیے جس حساب سے وہ منظرعام پر آئے۔ ’’پانی‘‘ غضنفر کا پہلا ناول ہے جو 1989 میں شائع ہوا اور اسے اس دور کے دو نمائندہ ناولوں پیغام آفاقی کے ’’مکان‘‘ اور عبدالصمد کے ’’دو گز زمین‘‘ کے ساتھ ایک نئے trend setter کے طور پر دیکھا گیا۔ موضوع اچھوتا تھا، اسلوب میں جدت و ندرت تھی اور علامت و تجرید کے دھندلکوں میں ملفوف داستانوی پیرایہ بیان قارئین کی توجہ کا مرکز بن گیا۔صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں کے مصداق غضنفر نے اس ناول میں چاند اور بادلوں کی آنکھ مچولی کا سا ماحول تخلیق کیا ہے۔ ناول کے مرکزی خیال اور اس کی تفہیم کو مکمل طور پر قاری پر چھوڑ دیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس ناول میں ذہنی آزمائش اور فکر کی خامہ سرگردانی کی کافی گنجائش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس ناول کے بارے میں ناقدین کی آراء میں کافی اختلاف ہے اور خود غضنفر کا یہ خیال ہے کہ اس ناول کو آج تک مکمل طور پر کوئی نہیں سمجھ سکا ہے۔‘‘
مصنفہ نے تنقید کے پیرائے میں مشاہدہ کے موتی بکھیرے ہیں تنقید کے معنی تصنیف کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کر نا اور اس کی باطنی و ظاہری کشمکش کے درمیاں غیر جانبدارانہ رویہ کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرنا اس کے اچھے و برے نکات کا جائیزہ پیش کرنا تحقیق نگار کا کام ہوتا ہے۔مصنفہ نے بھی بیجا الفاظ کی نمائش سے خود کو پاک رکھتے ہوئے ایک دائرہ منفی و مثبت پہلوؤں کا پیش کیا ہے ۔ ایک ناقد کے جسم میں روحِ ستائش کا سراپہ متعدد مرتبہ خامیوں وتقاضوں سے چشم پوشی کر مثبت و اہمیت کا سرچشمہ رواں کیا ہے ۔
پانی۔جستجوئے لاحاصل کی ابدی کہانی کے عنوان سے اپنے پہلے مضمون کو رکھا ہے اور ناول ’’پانی پر مفصل بحث کی ہے ۔ جہاں ناول کی چند خوبیوں کے در عکس اس کے ساتھ پیدا ہوتی تشنگی کا اظہار کیا ہے ۔ یہاں اپنے آپ کو زمین سے الگ اور روایتی انداز سے علحدہ سمجھنے والے دورِ حاضرہ کے ناول نگاروں کی ہی سف کے ایک سپہ سالار کی خامخیال میناروں کی گرد کو اجاگر کیا ہے ’’پانی ‘‘کی اس خشکی کا اعتراف کروا دیا ہے کہ جس سے چندہی سیراب ہوئے ہوں گے ناول کے گر پلاٹ کی بات کریں تو وہ بہترین ہے ۔ ناول نگار کے اندازِ بیاں اور مشمولہ کہانی کے ساتھ سفر کرتے قاری کی مشکلوں کی بھی وضاحت کی ہے جہاں کہانی اپنے ہی دھاروں سے بغاوت کرنے لگے وہاں قاری کی کوتاہ فکری کا ملال کرنا کہاں تک انساف کے قریب ہے یہ تو ناول نگار ہی جانیں۔خواہ پھر بھی مصنفہ نے انکی تکنیک،مضمون فہمی،مکالمات،منظر کشی اور جزویاتی اداکاری کو سراہا ہے جو کہ تحریر کی اہمیت کا ثبوت ہے ۔
تنقیدی مجموعے میں بالخصوص جن کا انتخاب کیا گیا ہے ان میں پانی،کہانی انکل،کینچلی،دویہ بانی،فسوں،وش منتھن،مم،شوراب اور پھر مانجھی کا تذکرہ ہے بعض مفصل گفتگو ہے تو کہیں چند سطروں پر ہی اکتفا کیاہے۔آخر میں ایک تفصیلی انٹرویو بھی منسلک کیا گیا ہے جن میں خاصے موضوعات کا انکشاف ہواہے ۔
پانی کے بعد کینچلی ایک خوبصورت تخلیق کا نام کہا جا سکتا ہے جسکا خود اعتراف محبانِ فن نے کیا ۔ شگفتہ نے اس کا ذکر ’’کینچلی۔ زندگی کا روپ بہروپ‘‘ عنوان سے کر پرت در پرت کے تلسم کو مزید حیرت کدے میں تبدیل کر دیا ۔چوں کہ شگفتہ کی زبان سرد نہیں ہے اورر اسکی فکر کا لمس اپنی حرارت کھوتا نہیں اسنے کینچلی کی کسک کو لا کر زندہ کر دیا ۔انہیں تسلسل سے آشنائی ہے اور محاورات و تجاحلِ عارفانہ کے پیمانے بھی پر کرنے آتے ہیں لہٰذا اپنی ان تمان خوبیوں کو بے باکی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔کینچلی کے تانے بانے اور کرداروں کی آمد و رفت ،احساس و کیفیت مناظر کا تبدیل ہوتا رنگ اور رشتوں کی درکتی دیواروں کا کرب سبھی کچھ ناول میں موجود ہے ۔ تاہم مصنفہ لکھتی ہیں ۔ ’’اور اس موضوع کی پیشکش کے لیے غضنفر نے بے حد مہارت سے مینا، دانش اور سجّن کے نفسیاتی تجزیے کیے ہیں۔ کشمکش، الجھاؤ، فرار و گریز اور پھر کسی قابلِ قبول حل تک پہنچنے کے تمام مراحل بے حد چابکدستی کے ساتھ طے ہوئے ہیں۔ انجام گرچہ غیرفطری ہے لیکن پیشکش کا انداز بالکل فطری ہے۔ انسانی نفسیات کی اس سے بہتر عکاسی اور کیا ہوگی کہ ہر کردار کے دروں کو کھول کر رکھ دیا ہے۔دانش کی بے بسی کو اُجاگر کرنے کے لیے اس کی نگاہوں کو ورزش کرتے نوجوان کی دیوار پر ٹنگی تصویر پر مرکوز دکھایا گیا ہے۔ وِہیل چیئر کا استعمال پورے ناول میں کہیں نظر نہیں آتا لیکن مینا کے لیے پھل ٹانک اور نئی گڑیا خریدنے کی خاطر دانش کا اس وہیل چیئر کا سہارا لینا اس تبدیلی کی طرف اشارہ ہے جو اس میں زندگی کی جانب دوبارہ لوٹنے کی رمق پیدا کررہی تھی۔
’’جبینِ وقت پہ جبرِ انسانی۔ دویہ بانی‘‘ کے عنوان کے ساتھ دویہ بانی کا بہترین تذکرہ پیش کیا ہے جہاں ناول نگار نے ایک اہم موضوع کی جانب توجہ مرکوز کی ہے ’دلت‘۔ دویہ وانی اردو ادب کی اپنی ایک مثالی تخلیق ہے جس نے ہندوستان کے دبے کچلے ایک طبقے کے ناصور کو وا کیا ہے یہ زخم بھرتا بھی نہیں اور اسکا مواد رس رس کر ملک کی شفاف تصویر پر ہر طور چھپایا جاتا رہا ہے ۔مسلمانوں کے حالات پر تو ویسے بھی نظر نہیں کی جاتی جنکی حالت آج دلتوں سے بھی بدتر ہے ، لیکن ایک ایسے سلگتے دور میں بھی اردود اں ادیب نے دلتوں کے غم کو ابھارنے کی پہل کی ہے ۔ناول کے متعلق شگفتہ لکھتی ہیں ’’’’دویہ بانی‘‘ غضنفر کا ایک ایسا ہی ناول ہے جس میں دلتوں کے مسائل کی عکاسی اور سماج میں ان کی حیثیت اور مرتبے کا تعین کیا گیا ہے۔ پورا ناول صرف اسی ایک سوال پر مرکوز ہے کہ دلتوں کے پچھڑے پن کا سبب کیا ہے اور اس پسماندگی کو وہ اپنا مقدر سمجھ کر جھیلنے پر کیوں مجبور ہیں؟
اس سوال کے جواب کی تلاش میں کئی سوال اُبھرتے ہیں اور سوال و جواب کا دراز ہوتا سلسلہ غضنفر کے بیانیہ پیرائے میں ڈھل کر ’’دویہ بانی‘‘ کا روپ اختیار کرلیتا ہے۔ ’’دویہ بانی‘‘ نہ کوئی الہام ہے نہ وحی۔ یہ دراصل صور بیداری ہے جو خاک کے پتلے میں اپنے وجود کا شعور و ادراک پیدا کرتا ہے۔
اس کے بعد یکے بعد دیگرِ کئی تحریروں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن میں غضنفر اور عکسِ فسوں،وِش منتھن ۔ ایک تنقیدی جائزہ، مم، شوراب میں ڈوبی حیات و کائنات اور پھر مانجھی۔ ان میں سے بعض ناول وہ تھے جن کا کوئی خاص اثر ادبی حلقے میں قائم نہیں رہا اسکی بھی کئی وجوہات ہیں جن کاذکر مصنفہ نے کیا ہے ۔مانجھی اسی زمانے میں دستک دیتا ایک ایسا ناول ہے جسکا انداز کچھ مختلف تھا جہاں دیوناگری اور اردو کے میل کو دکھانے کی کوشش کی گئی لیکن موصوف پھر بھٹک گئے جہاں اردو میں قلب گیرائی ہو رہی ہے وہاں دیوناگری کے جال کی وللہ عالم کیوں کر اتتی ضرورت محسوس ہوئی ۔ اس حقیقت کا ادراک دیگر مضامین میں بھی کیا گیا جو کہ بحث کا موضوع بھی ہوا ۔ خیر ادب برائے ادب ،ادب برائے زندگی اور امروز ادب در عکس سیاست و نمائش کا بھی زمانہ پیش نظر ہے یہ کہنا بیجا نہ ہوگا کہ شگفتہ کی 144 کی دھارا کے بعد سفحات بر سفحات قابلِ مطالعہ مواد پیوست ہے ۔ کتنے اہم سوال کسے گئے اور کتنی ہی خامیوں کو منظرِ عام پر لایا گیا خواہ کہ وہ لسانی ہوں یا تکنیکی ۔پھر بھی یہ کوشش فکر کے گوشوں کو بار ہا جھنجھلاتی ہے اور راقمہ کی فکری و تنقیدی بالیدگی کے جہاز پرتیرتے ہوئے مصرور کرتی ہے ۔






Comments

Popular posts from this blog

Tazkirah nigaari

Shakeel Badayuni

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam