Parveen shakir ka rang e khushaboo


پروین شاکر کا رنگِ خوشبو

توبدلتا ہے تو بیساختہ میری آنکھیں
اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں
پروین شاکر اردو ادب کا روشن ستارہ ہے۔ا نکے فکرو خیال کی جادوگری نے ہی ان کے کلام کو بے مثال بنا دیا ہے ، پاکستان کی معروف شاعرہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ، اردو ادب میں آپ کا خاص مقام ہے ۔ سرحدیں بھی ان کے کلام کی مہک کو قید نہ کرسکیں بے خوف محبت میں ڈوبی انکی آواز بلند دراز چرخ پر گونجتی ہے اور انکی نرالی سوچ روایتوں کا دامن چھٹک کرنئے موضوعات، خیالات،نظریات کا مظاہرہ پیش کرتی ہیں۔
ادب کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو بے پرواہ ہوکر پرواز کرتا ہے اور اسی لیے محبت میں بھیگی پروین کی تحریریں پوری دنیا میں محبوب ذوق کا پیمانہ ہیں، اپنی نظموں کے اندازوبیان کے متعلق لکھتی ہیں کہ :
’’کچھ کم گوش یہ کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی شاعری میں سوائے بارش کی ہنسی، پھولوں کی مسکراہٹ، چڑیوں کے گیتوں اور اس کی اپنی سرگوشیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔اسکا مجھے اعتراف ہے۔‘‘۱؂
یہ اعتراف بڑے عزم کی بات ہے ، اپنی زندگی میں پیش آئے حالات کا پروین نے الگ ہی انداز میں ذکرکیاہے۔ ’’خوشبو‘‘ اردو کے چاہنے والوں کے لئے انکا پہلا تحفہ ہے اور اس کے بعد صدبرگ، خود کلامی، انکار، کفِ آئینہ ، شعری مجموعوں کی شکل میں موجودہیں۔’ خشبو ‘جو کہ پروین کی بہت دلکش غزلیات،نظم،قطعات وبند کا مجموعہ ہے اس شعری مجموعے’خوشبو‘ کے چند موضوعات پیش ہیں ۔
نظم خوشبو کی زبان
زبانِ غیر میں لکھا ہے تونے خط مجھ کو
بہت عجیب عبارت بڑی اوق تحریر
یہ سارے حرف مری حد فہم سے باہر
میں ایک لفظ بھی محسوس کرنہیں سکتی
’خوشبو‘ کے انداز کے متعلق وہ لکھتی ہیں کہ’’ انہی پھولوں کی پنکھڑیاں چنتے چنتے ، آئینہ در آئینہ خود کو کھوجتی یہ لڑکی شہر کی اس سنسان گلی تک آ پہنچی ہے کہ مڑ کر دیکھتی ہے تو پیچھے دور دور تک کرچیاں بکھری ہوئی ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ اس نے اپنے عکس کو جوڑنے کی سعی نہیں کی ۔ کی۔ پر اس کھیل میں کبھی تصویر دھندلا گئی اور کبھی انگلیاں لہو لہان ہوگئیں،’’خوشبو‘‘ اسی سفر کی کہانی ہے حیران آنکھوں، شبنمی رخساروں اور اداس مسکراہٹ والی اس لڑکی کو اعتراف ہے کہ یہ کہانی نئی نہیں ہے۔‘‘۱؂
اپنی رسوائی تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
شام بھی ہو گئی دھندھلا گئیں آنکھیں بھی میری
بھولنے والے میں کب تک ترا رستا دیکھوں
ان کے ہر رنگ کو ایک ہی مضمون میں پیش کردینا ممکن نہیں اس لیے چند اندازِ فکر خاص طور پر جن میں محبت، شکایت، احوالِ دل ، امید اور جدائی قابلِ ذکر ہیں، خوشبو کے یہ رنگ بہت خوبصورت اور قابلِ قدر ہیں۔
کہتے ہیں پروین شاکر خوشگوار موسم کو اپنے الفاظ میں ڈھالنے کا ہنر رکھتی ہیں ، نازک و نرم لہجہ ، دلسوز ادائیگی، بے پرواہ شاعری ، انوکھی ادا یہ تمام پہلو بہت شدت کے ساتھ نظر�آتے ہیں۔ پروین جذبات کا بیان ان الفاظ میں کرتی ہیں کہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہر دل کی داستان ہو ایک نظم میں اتنی شائستگی سے لکھتی ہیں:150
نظم احتیاط
سوتے میں بھی
چہرے کو آنچل سے چھپائے لیتی ہوں
ڈر لگتا ہے
پلکوں کی ہلکی سی لرزش
ہونٹوں کی موہوم سی جنبش
گالوں پر رہ رہ کر اترنے والی دھنک
لہو میں چاند رچاتی اس ننھی سی خوشی کا
نام نہ لے لے
نیند میں آئی ہوئی مسکان
کسی سے دل کی بات نہ کہہ دے
پروین شاکر محبت کی ترجمانی اس طلسم سے کرتی ہیں کہ عام سے عام بات بھی بہت خاص نظر آتی ہے۔ ایک پر مذین عشق کی بازی میں خود کو مات دلانے کی بیقراری زمین و آسمانمیں فقط اپنی کمسن محبت کی مہک پھیلانے کی پر کیف ادا پروین کے ہمراہ ہی زیبِ نظر ہے۔محبت وہ ایک عجیب کیفیت ہے کہ جس سے نہ دل کو چین ہی آتا ہے نہ اس سے ہجر کے لمحات ہی راحت دلا پاتے ہیں شب و روز انتشار کا عالم ہے اور دیوانگیِ عشق ،حسن کو اور بھی مستعد بنا دیتا ہے ۔ وہ گویا اپنی محبت سے سنوارے گئے احساس کی شبنم کے موتی ورق پر بکھیر دیتی ہیں جسسے وابستہ ہوتے ہی ہر بے قرار قلب سے ایک واہ نکلتی ہے اورخلاؤں تک وہ داد اپنا مقام حاصل کرتی ہے ،لکھتی ہیں:150
نظم دعا
دعا تو جانے کون سی تھی
ٓذہن میں نہیں
بس اتنا یاد ہے
کہ دو ہتھیلیاں ملی ہوئی تھیں
جن میں ایک میری تھی
اور ایک تمہاری
*
رات جب پھول کے رخسار پہ دھیرے سے جھکی
چاند نے جھک کے کہا اور ذرا آہستہ
جہاں محبت کا سرور اتنا دلکش ہے وہیں شکایت کا انداز بھی بے جان نہیں ہوتا، یہاں بہت شائستہ ڈور تھام کر ایک نازک مزاج لڑکی اپنے نو عمر انداز کے ہمکلام جب شکایت کرتی ہے تو اسکا حسنِ نظر ،بے باک اٹکھیلیاں اور ناز و نخرہ ابھر کر سامنے آتا ہے ذوق کا پہلو سمٹ سمٹ کر اس صنف کے لب و لھجے سے بیاں ہوتا ہے شکایتیں محبوب سے اسکی بے پرواہ محبت کے عمر سے اور عاشق دلِ زار کی حالتِ مجبور سے ہر ہر عنصر کو بڑی لیاقت مندی کے ساتھ سنوارہ گیا ہے۔ شکایت کے آرزومند سمندر میں بے تاب لہریں اٹھتی ہیں،پروین کے یہاں اس رنگ میں جذبات کی انگڑائیاں کہیں پست نہیں ہوتیں ،گر کچھ نظر آتا ہے تو فقط شکایت کا معصوم چہرہ ۔ لکھتی ہیں
ابھی سے میرے رفوگر کے ہاتھ تھکنے لگے
ابھی تو چاک میرے زخم کے سلے بھی نہیں
*
وہ چوٹ کیا ہوئی کہ جو آنسو نہ بن سکی
وہ درد کیا ہوا جو مصرعہ نہ بن سکا
میں برگ برگ اس کو نمو بخشتی رہی
وہ شاخ شاخ میری جڑیں کاٹتا رہا
محبت کا اعتراف ، عشق کا ذوق اور اپنی بے تاب تمناؤں کی ادائیگی میں بھی پروین کا کوئی ثانی نہیں، آسان سے آسان حالات کو بھی اتنی شگفتہ زباں سے کہتی ہیں کہ تحریر پر محبت ہوجائے عام موضوع جن میں چاند، آفتاب، چڑیا،تتلی،درخت،بارش،ندی، پانی ،عکس،لڑکی پر بھی بہت خوب شعر کہے ہیں۔
وہ جس سے رہا آج تک آواز کا رشتہ
بھیجے مری سوچوں کو اب الفاظ کا رشتہ
تتلی سے میرا پیار کچھ ایسے بھی بڑھا ہے
دونوں میں رہا لزتِ پرواز کا رشتہ
*
نظم چاندنی
اس دریچے کو چھوکر
میرے نیم روشن جھروکے میں آئے نہ آئے
مگر
میری پلکوں کی تقدیر سے نیند چنتی رہے
اور اس آنکھ کے خواب بنتی رہے
اپنے عزم اور انا کو یہ لڑکی کبھی جھکنے نہیں دیتی، محبت اور شکست دونوں ہی پہلو بدل بدل کر زندگی میں درپیش ہوئے مگر زندگی سے ناامیدی اختیار نہیں کی انکی شاعری کا یہ بھی ایک اہم پہلو ہے کہ وہ محبت کو کمزور نہیں ہونے دیتیں ٹوٹا دل فریاد نہیں کرتا ناامیدی شکستہ حالی بے چارگی کہیں حاوی نہیں ہوتے ہر حال میں شادابیوں اور ترقی وخیر کے تا ثرات ادا کرتی ہیں۔
میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھ کو اپنی خطاؤں میں بھی بھلا ہی لگا
نہ میرے لطف پہ حیراں نہ اپنی الجھن پر
مجھے یہ شخص تو ہر شخص سے جدا ہی لگا
یارب !مرے سکوت کو وہ نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
تخیل ماہتاب ہو، اظہار آئینہ
آنکھوں کو لفظ لفظ کا چہرہ دکھائی دے
موضوع جدائی پروین نے اس خوبصورتی سے نبھایا ہے کہ ہر شعر میں ادبی شان نمایا ہے ،کئی دفا انکے بیباک انداز پر تبصرہ بھی ہوئے ہیں اور انکی پر خلوص تحریر کو کئی مرتبہ غرور و تکبر سے بھی وابستہ کیا گیا ہے لیکن گر حقیقت کے ریشمی عکس کے پہلو کو تھام کر بعض وقت خیال کیجیئے تو احساس کی سطح پر نیم آبی موتیوں کے ہار ملیں گے اور غور سے دیکھیں کہ جس صنف نازک کی روشنائیء قلم میں اتنی محبت ،عاجزی شائستگی ،سلاست و انکساری کی رعنائیاں پیوست ہیں وہ معصوم الفاظ کی شہزادی مغرور کیسے ہوسکتی ہے جو خلل سے باز ہے جوانی کے نغموں میں کھوئی ہے نفرت و جبر کی وادی کو فراموش کئے ہے اور بے درد زندگی نے اسکے دامن میں سوائے کرب و سوز کے ناانصاف کانٹوں کے کوئی راحت نا دی ہو جو خود سے الجھی ہو وہ مغرور کیسے ہوسکتی ہے ہاں وہ مجبور ضرور ہوسکتی ہے جدائی پر لکھی انکی غزلیں اور نظم اسی کا اصل ثبوط ہیں۔
شدید دکھ تھا اگرچہ تیری جدائی کا
سوا ہے رنج ہمیں تیری بیوفائی کا
تجھے بھی ذوق نئے تجربات کا ہوگا
ہمیں بھی شوق تھا کچھ بخت آزمائی کا
*
خیال وخواب ہوا برگ و بار کا موسم
بچھڑ گیا تری صورت ، بہار کا موسم
رفاقتوں کے نئے خواب خوشنما ہیں مگر
گذر چکا ہے ترے اعتبار کا موسم
*
بچپنے کا ساتھ ہے پھر ایک سے دونوں کے دکھ
رات کا اور میرا آنچل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
لڑکیوں کے دکھ عجیب ہوتے ہیں، سکھ اس سے عجیب
ہنس رہی ہیں اور کاجل بھیگتا ہے ساتھ ساتھ
پروین نے عورت کی اصل کیفیت ،درد ،سوچ،آرزو، خواہش ،اور اسکی دعاوؤں کا بہت گہرائی سے مطالعہ کیا ہوگا اور کئی مرتبہ تو انکی وہ دلسوز تحریر پڑھتے ہوئے خود بخود محسوس ہوتا ہے کہ سارے جہاں کے دکھ سمیٹ کر غم کی روشنائی کے ساتھ پروین نے جوں ہی دفتر کی جانب نظر ڈالی ہوگی یقیناًانگلیاں کانپی ہوں گی قلم لرزہ ہوگا۔
بقول پروین حسن جب لطافت کی آخری حدوں کو چھو لے تو خوشبو بن جاتا ہے، خوشبو حسن کی تکمیل ہے۔
میں پانیوں کی مسافر، وہ آسمانوں کا
کہاں سے ربط بڑھائیں کہ درمیاں ہے خلا
بچھڑتے وقت دلوں کو اگر چہ دکھ تو ہوا
کھلی فضا میں مگر سانس لینا اچھّا لگا

بحوالہ جات:
۱۔ کلیاتِ پروین شاکر ص ۱۷، خوشبو ۱۹۹۷ء

از: ڈاکٹر زیبا زینت

Comments

Popular posts from this blog

Tazkirah nigaari

Shakeel Badayuni

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam