Posts

Showing posts from 2017

Teri ankhon ke siwa

تیری آنکھوں کے سوا کہتے ہیں جب زبان خاموش ہو جایا کرتی ہے تب نگاہیں بات کرتی ہیں، نگاہ کو ہی یہ شرف حاصل ہے۔ کسی نازنیں کی نگاہ مجسم اوقات میں بھی اپنے افکار کی رعنائی کے جلوے دکھادیا کرتی ہے۔ نگاہ اپنے قریب ہزاروں سوالات کے بحر رواں کر عجیب سا ماحول پیدا کردیتی ہیں ۔ ایک انتشار کا عالم برپا ہوتا ہے۔ ذہن میں تشنگی کا عالم ہوتا ہے کہ جب نگاہ جھکی ہو تو اس میں شرم و حیا و شکایات کی ادا کے ہمراہ کہیں کہیں مایوسی کا پیمانہ بھی موجود ہوا کرتا ہے۔ جب دراز فلک کے نامعلوم گوشوں میں کسی کی بے سدھ نظر تلاش کا عنصر ساتھ لیے کھوئی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ وقت اپنے آپ میں کس قدر نامانوس ہواجاتا ہے ، اس کا اندازہ کرنا بھی اپنے تئیں کارِ دشوار ہے۔ نگاہ کے طلسم سے بظاہر کامل وابستگی ناممکن ہے نا جانے کس وقت کون سا تیر چل جائے۔ راحت اندوری کا شعر ملاحظہ فرمائیں: اس کی کتھئی آنکھو ں میں ہے جنتر منتر سب چاقو واقو، چھریاں وریاں ، خنجر ونجر سب سچ تو یہ ہے کہ انسانی صورت خد و خال اور منقسم اصناف میں آنکھیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، لیکن ذرا غور کیجئے کیا نگاہِ زن ہی اپنے درمیاں یہ تمام خاصیت و ناز اختیار کیے ہیں ،...

Urdu Zaban aur asre jadeed عصرِ جدید میں اردو زبان کے تقاضے اور مسئلہ روزگار

Image
عصرِ جدید میں اردو زبان کے تقاضے اور مسئلہ روزگار قرآن حکیم میں جگہ جگہ فرمایا گیا ہے کہ ’’کائنات اور آثار کائنات پر غور وفکر کرو پھر فرمایا کہ کائنات پر غور وفکر وہی لوگ کرتے ہیں جو زیورِ علم سے آراستہ ہیں‘‘۔ علم انسان کی شناخت وبصارت انسانیت کے سفر کا انیق ذریعہ ہے اسی سے انسان نہ صرف دیگر مخلوق پر بلکہ ہم جنسوں پر بھی برتری و اتالیقی حاصل کرتا ہے، یہ واضح حقیقت ہے کہ علم وتعلم کمی وفقدان سے قوموں کی توانائی ختم ہوجاتی ہے ذہن ودل انتشار وپسماندگی کی جانب راغب ہوجاتے ہیں۔ اردو زبان وادب بھی ایسے ہی دو راہے پر حیران کن ہے کہ جہاں اسے نہ اپنے خیر خواہ ہی نظر آتے ہیں اور نہ ہی زبان سے مروت وقربت کے پر خلوص وخالص افراد ہی میسر ہیں کہ جن کے قلب میں اردو کا عشق روشن ہے اور ذہن میں اس کی ترقی کے موافق امکان ہی شعلہ زن ہیں، عصر حاضر بڑی محنت ومشقت کے ساتھ اردو کو تھامے ہمارے روبرو ہے، یا یوں کہیں کہ اردو اپنے آپ کو موافق مواقع فراہم کر کسی طور خود پر اعتبار کر پھر سے رونما ہوئی ہے۔ پروفیسر گوپی چاند نارنگ کا قول ہے کہ زبان کی ترقی کی جب بات کرتے ہیں تو، اردو کے مسئلے پر س...

Shagufta yasmeen pani se maanjhi tak

’’پانی سے مانجھی تک ‘‘ایک دلچسپ سفر:شگفتہ یاسمین شگفتہ یاسمین ایک خوش گفتار اور مہذب خاتون ہیں اپنی پر کشش آواز کے ساتھ وہ الیکٹرانک میڈیا میں کوشاں ہیں ۔خوش بخت اور شیریں سخن یاسمین کی اولین مطبوعہ تصنیف کا منظرِ عام پر آنا ایک حسین احساس کا حامل ہے اور انکی یہ آمد موجوں کے اضطراب پر واقع ہے ۔ الغرض پانی سے مانجھی تک:تنقید کے آئینہ میں۔ شگفتہ کا تعلق ادب کی اس شاخ سے ہے کہ جہاں ہنر کو قبائے نازنیں کی مانند سنوار کر پیش کیا جاتا ہے اور یہی آراستگی اولین فریضہ کا مقام حاصل کئے ہوتی ہے۔جہاں زبان و بیان میں کوئی خامی تسلیم نہیں کی جاتی ۔ایسے حالات میں مصنفہ نے تنقید کی پر خار دہلیج پر اپنے افکار و تاثر ات کے گل پیش کئے ہیں۔قلم کو چابک دستی کے ساتھ آتش کدے کی راہ پر سفر پذیر کیا ہے جو کہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔مصنفہ نے اپنے اس تنقیدی مجموعے میں مشہور و معروف افسانہ نگار،ناول نگار، ادیب اور شاعر غضنفر کے ناول زیرِ بحث ہیں ۔پانی سے مانجھی تک سے باضبطہ طور پر مراد غضنفر کے وہ تمام ناول ہیں جو منظرِ عام پر آچکے ہیں اور جن میں سے بعض کی قابل قدر پذیرائی بھی ہوئی ۔یہ ایک مجموعی احاطہ ہے لہٰ...

Bismil saeedi tonki

احساسِ تقدس کا منفرد شاعر بسملؔ سعیدی ٹونکی ہندوستان کے صوبے راجستھان کے علاقائی ادب کوکسی طورفراموش نہیں کیا جاسکتا۔ راجستھان کے علاقہ ٹونک کی ادبستان میں اپنی منفرد شناخت ہے ۔ٹونک زبان و ادب کی ایک خوبصورت وادی ہے کہ جہاں آج بھی بناس کے کنارے مروت و اخلاس کے پیمانے چھلکتے ہیں ۔لطافتوں کے ساتھ قہقہے گونجتے ہیں اور بیار کی بھینی بھینی سوندھی مہک کے ساتھ عشق کا سرور اپنے رنگ دکھاتا ہے ۔جہاں آج بھی گلیوں میں پان کی گلوری کا مزہ باقی ہے اور سندل کی ٹوکری میں زیب دیتے موگرے کے ہار ماحول کو خوشنما کئے دیتے ہیں یہ وہی اخترؔ کا ٹونک ہے ،یہ وہی امیر خاں کا ٹونک ہے،ٹونک کہ جہاں اردو ،فارسی عربی کے مایہ ناز ادبا، شعرا،حکما، فضلا نے اپنے زبان و بیان ،تخلیقیت وماہیت کا ایک جدا گانہ مذاق قائم رکھا اور بناس کے کنارے بسے اسی سر سبز و شاداب شہر نے ہر دور میں باذوق و با کمال ادبی سر چشمے رواں کئے ۔ اسی ضمن میں اس مقدس علاقے کا ایک شاعر جسے احساس کا بانی اور جزبات کا قلندر کہا جاتا ہے ’’سید علی میاں بسملؔ سعیدی‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر نمودار ہوا۔ جن کاکلام ’’آپ بیتی‘‘ کا مزہ لیے تھاجس کے بطن سے ...

Tazkirah nigaari

آزادی کے بعد راجستھان میں تذکرہ نگاری اردو میں تذکرہ نگاری نے اردو شعر و ادب کی تاریخ ہی مرتب نہیں کی بلکہ اردو میں تنقید کی راہیں بھی کھولیں۔ اردو شعرا کے تذکرہ نگاری کا آغاز اٹھارہویں صدی کے وسط میں شروع ہوچکا تھا۔ اور شروع میں فارسی زبان میں تذکرے لکھے لگے۔ اور پھر اس کے بعد اردو زبان میں تذکرہ لکھے جانے لگے۔ اردو کے قدیم تذکروں میں ’نکات الشعرا‘ مرتبہ میر تقی میرؔ ، ’تذکرہ گلشن گفتار‘ مرتبہ حمید اورنگ آبادی، ’تحفۃ الشعرا‘ مرتبہ اکبر بیگ کاشکال، ’تذکرہ ریختہ گویا‘ مرتبہ فتح علی حسینی اور ’تذکرہ معدن نکات‘ مرتبہ قیام الدین قائم قابلِ ذکر ہیں۔ یہ تذکرے اردو کے قدیم تذکرے ہیں جو ۱۱۶۵ھ ۱۱۸۶ھ تک کے دوران لکھے گئے ہیں۔ ان میں نکات الشعرا کو اردو شعرا کا پہلا تذکرہ معنی جاتا ہے۔جو کہ فارسی زبان میں لکھا ہوا ہے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ ارو شعرا کے تذکرے اردو میں لکھے جانے لگے۔ اس سلسلے میں قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اردو شاعروں کے تقریباً ۳۲؍ تذکرے فارسی زبان میں ہیں۔ایک تذکرہ فرانسیسی زبان میں تاریخ ادب ہندوستان کے نام سے ۱۸۱۰ء میں مرتب کیا تھا۔ اسی طرح ایک تذکرہ انگریزی زبان میں یا...

Parveen shakir ka rang e khushaboo

پروین شاکر کا رنگِ خوشبو توبدلتا ہے تو بیساختہ میری آنکھیں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے الجھ جاتی ہیں پروین شاکر اردو ادب کا روشن ستارہ ہے۔ا نکے فکرو خیال کی جادوگری نے ہی ان کے کلام کو بے مثال بنا دیا ہے ، پاکستان کی معروف شاعرہ کسی تعارف کی محتاج نہیں ، اردو ادب میں آپ کا خاص مقام ہے ۔ سرحدیں بھی ان کے کلام کی مہک کو قید نہ کرسکیں بے خوف محبت میں ڈوبی انکی آواز بلند دراز چرخ پر گونجتی ہے اور انکی نرالی سوچ روایتوں کا دامن چھٹک کرنئے موضوعات، خیالات،نظریات کا مظاہرہ پیش کرتی ہیں۔ ادب کہیں سے بھی تعلق رکھتا ہو بے پرواہ ہوکر پرواز کرتا ہے اور اسی لیے محبت میں بھیگی پروین کی تحریریں پوری دنیا میں محبوب ذوق کا پیمانہ ہیں، اپنی نظموں کے اندازوبیان کے متعلق لکھتی ہیں کہ : ’’کچھ کم گوش یہ کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی شاعری میں سوائے بارش کی ہنسی، پھولوں کی مسکراہٹ، چڑیوں کے گیتوں اور اس کی اپنی سرگوشیوں کے علاوہ اور کچھ نہیں۔اسکا مجھے اعتراف ہے۔‘‘۱؂ یہ اعتراف بڑے عزم کی بات ہے ، اپنی زندگی میں پیش آئے حالات کا پروین نے الگ ہی انداز میں ذکرکیاہے۔ ’’خوشبو‘‘ اردو کے چاہنے والوں کے لئ...

Allama Iqbal علامہ اقبالؔ اور وجودِ زن کا بیان

Image
علامہ اقبالؔ اور وجودِ زن کا بیان از : ڈاکٹر زیبا زینت صنف نازک کا ذکر اردو ادب میں بڑی شدت کے ساتھ احترام و اعتراف کے ہمسایہ شعراء و ادباء نے بہت شگفتہ انداز سے کیا ہے۔ رب العزت نے جس شے کو تخلیق انسانی کا ذریعہ بناکر دنیا میں اتارا، اور جس کے بطن سے پیدا کرنے کی طاقت و قوت عطا کی ، جس عورت کو اللہ نے دنیا میں سب سے بڑا رتبہ ’ماں‘ عطا کیا اور جس کے قدموں میں جنت کا راستہ موقوف کردیا اس عظیم وبلند صنف کے منور و شاداب استعداد کارِدراز کی ستائش و اطاعت کے پیامات دانشورانِ فن نے سنہری روشنائی سے قلمبند کر تاریخ میں ثبت کردیئے ہیں کہ جس میں ہر ادا و فن ، محبت، چاہت، انسیت ، الفت ، قابلیت و جاذبیت ، ہنرمندی و صبر و ضبط کا قابلِ قدر و بیش بہا سرمایہ بالخصوص پیش کیا ہے ، یہ مقام عورت ہی کو حاصل ہے کہ جو ستوئش کے عمل پر درجہ اول حاصل کئے ہے۔ اردو ادب میں جہاں ایک طرف غالبؔ ، میرؔ ، داغؔ ، حالیؔ ، سوداؔ نے عشق و محبت سے لبریز نغمے راحت قلب کیے ہیں وہیں ذوقؔ ، نظیرؔ ، آزادؔ ، فراقؔ ، مومنؔ کے ذہن نشین کلام سے بھی وابستہ کرایا ہے کہ جس کے درمیان عورت سے عشق کے ترانے بھی گو...

Ahmad Faraz aur shikayaat ka mausam

Image
احمد فراز اور شکایات کا موسم کب ہم نے کہا تھا ہمیں دستار و قبا دو ہم لوگ نواگر ہیں ہمیں اذن نوا دو اردو زبان کے نامور اور معروف شاعر احمدفراز اپنے جدید او ر نرالے کلام کے بائث آج ادب میں ممتاز مقام حاصل کئے ہوئے ہیں ۔احمد فراز اس دور کی شعر گوئی کے فلک پر روشن حسین خیال شاعر ہیں جنہوں نے نظم میں طوانائی اور خیالِ پر کیف کو شامل کیا ۔ ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام تیرا کوئی تجھ سا ہو تو نام بھی تجھ سا رکھے احمد فراز پاکستان میں ۱۴ جنوری ۱۹۳۱ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔آپ کا نام سید احمد شاہ اور فرازؔ تخلص تھا۔ احمد فرازؔ نے اردو فارسی ادب کے ساتھ اپنی اعلی تعلیم مکمل کی اور پھر پیشاور یونیورسٹی میں لیکچرر ہو گئے۔ احمد فرازؔ کے قریب شعری ذوق زمانے کے ماحول ، ذہنی تبدیلی ،خود بینی کے سبب سے ابھر کر سامنے آیا ۔احمد فراز خاص طور پر فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری سے مطاثر نظر آتے ہیں۔ احمد فرازؔ کی شاعری میں خالصاً رومانیت کا ،محبت کا رنگ شامل ہے۔محبت کا پر لطف موسم اپنے شباب پر نظموں میں نظر آتاہے ۔ احمد فراز نئی نسل، نئی سوچ، نئے افکار، نئی طرز ،اور نئ...

Happy father's day

Image
पापा..... एक शाम ऑफिस से घर पहोंची हाँ पापा के घर .... जाने क्यूँ इसे कभी भी मम्मा का घर कहा ही नहीं .. पापा अपने रूम में लेते थे ... मेने करीब जा कर उन्हें देखा .. पापा अब उम्र के साथ बहने लगे हैं .... उनके बाल सफ़ेद हो गए , आँखों और चेहरे पर झुरिय्या , वो मज़बूत कंधे अब झुके झुके से हैं और वो मेरी ताक़त अब बोझिल सी कुछ थकी थकी सी हो गयी है .. पापा अब सीढियां चढते हैं तो थक जाते हैं ... अब घूमने जाते हैं तो पहले की तरह हमारे तेज़ क़दम से क़दम नहीं मिला ... पापा अब खा ना भी कम खाते हैं ... मीठा कम , मिर्ची कम और रात में तो आधी रोटी बचा देते हैं ... अख्बार, बेंक बुक चश्मा लगा कर देखते हैं... और सामान उठाते हैं तो थक जाते हैं .... पापा अभी भी सो रहे हैं जेसे कोई मासूम बच्चा .. मेरी आहट पर उठ गए और बोले आ गयी ..... हां पापा आगयी ... आज देर हो गयी... हाँ पापा काम था ना पापा ने मेरी थकन महसूस की और कहा .......मुझे फोन कर देती में आजा तुझे लेने ... पापा आई लव यू ... सच्ची ये पापा ही कह सकते हैं .. दिन भर के थके .... ओह्ह पापा आप बिलकुल नहीं बदले .... बिलकुल वेसे ही जेसे बचपन में ईद से पहले आपको...