Teri ankhon ke siwa
تیری آنکھوں کے سوا کہتے ہیں جب زبان خاموش ہو جایا کرتی ہے تب نگاہیں بات کرتی ہیں، نگاہ کو ہی یہ شرف حاصل ہے۔ کسی نازنیں کی نگاہ مجسم اوقات میں بھی اپنے افکار کی رعنائی کے جلوے دکھادیا کرتی ہے۔ نگاہ اپنے قریب ہزاروں سوالات کے بحر رواں کر عجیب سا ماحول پیدا کردیتی ہیں ۔ ایک انتشار کا عالم برپا ہوتا ہے۔ ذہن میں تشنگی کا عالم ہوتا ہے کہ جب نگاہ جھکی ہو تو اس میں شرم و حیا و شکایات کی ادا کے ہمراہ کہیں کہیں مایوسی کا پیمانہ بھی موجود ہوا کرتا ہے۔ جب دراز فلک کے نامعلوم گوشوں میں کسی کی بے سدھ نظر تلاش کا عنصر ساتھ لیے کھوئی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ وقت اپنے آپ میں کس قدر نامانوس ہواجاتا ہے ، اس کا اندازہ کرنا بھی اپنے تئیں کارِ دشوار ہے۔ نگاہ کے طلسم سے بظاہر کامل وابستگی ناممکن ہے نا جانے کس وقت کون سا تیر چل جائے۔ راحت اندوری کا شعر ملاحظہ فرمائیں: اس کی کتھئی آنکھو ں میں ہے جنتر منتر سب چاقو واقو، چھریاں وریاں ، خنجر ونجر سب سچ تو یہ ہے کہ انسانی صورت خد و خال اور منقسم اصناف میں آنکھیں بہت اہمیت کی حامل ہیں، لیکن ذرا غور کیجئے کیا نگاہِ زن ہی اپنے درمیاں یہ تمام خاصیت و ناز اختیار کیے ہیں ،...